کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 72
اقول۔ یہ صوفیوں کی بری عادت ہے کہ وہ کار ثواب سمجھے ہوئے ہیں اپنی طرف سے حدیثیں وضع کرتے ہیں۔ علامہ السیوطی الفیۃ الحدیث صفحہ 25, 24 پر لکھتے ہیں:
وشرهم صوفیة قد وضعوا
محتسبین لاجر فیما یدعوا
یہ روایت لولاك لما خلقت الافلاك بھی صوفی حضرات کی خود تراشیدہ ہے، اہل علم نے اس کے موضوع ہونے کی صراحت کی ہے۔ سب سے پہلے تمہارے فقیہ علامہ علی القاری نے موضوعات کبیر صفحہ59 پر اسے موضوع کہا ہے، علاوہ ازیں موضوعات صغیر صفحہ 22پر بھی اسے موضوع مانا ہے۔
اسی طرح کشف الخفاء صفحہ 164، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ صفحہ 326 اور تذکر ہ الموضوعات صفحہ86 وغیرہ میں بھی اس کو موضوع کہا گیا ہے۔ یہ ایک جھوٹی روایت ہے جو مولانا صاحب نے بیان کی ہے۔ لہٰذا ھباء منثوراً ہو گئی۔ والحمد ﷲ علی ذالك
قال۔ علم کی انتہا وہاں تک پہنچے تو وہ علیم ہے ہم یہاں پر تمام لوگوں کو دیکھتے ہیں ہماری نظر روشنی کے ساتھ پڑتی ہے لیکن جب ہماری نظر اسی بتی پر نہ پڑی تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ (صفحہ41)۔
اقول۔ یہ مثال بھی غلط ہے کیونکہ کتنے ہی آدمی ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر کمزور ہوتی ہے، وہ بلب کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتے مگر دیگر چیزیں انہیں باآسانی نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ روشنی کے بغیر بھی دکھلا سکتا ہے۔ کتنے جانور ایسے ہیں جو رات کے اندھیرے میں سب کچھ دیکھتے ہیں مگر دن کے اجالے میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔
قال۔ جس شخص کی نظر اس بتی پر نہ پڑی محض بیٹھا ہوا دیکھتا رہا کیا وہ صاحب نظر ہے؟ یقینا نہیں ہے۔ (صفحہ41)۔