کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 69
اور عبادت کی جتنی بھی قسمیں ہم بجا لاتے ہیں یہ بھی اللہ ہی کا احسان ہے، وہی عمل کی توفیق مرحمت فرماتا ہے۔ یہی بات قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہے: يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ 17؀[1] یہ لوگ تم پر احسان جتلاتے ہیں کہ مسلمان ہو گئے ہیں، کہہ دو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھلایا۔ اور سر جسے آپ محض اور فقط کہہ رہے ہو یہ بھی تو اسی کا عطا کردہ ہے اور ہم جو اسے زمین پر رکھتے ہیں یا سجدہ کرتے ہیں یہ بھی اسی کی مہربانی اور عنایت کا نتیجہ ہے، مگر شاباش ہو مقرر صاحب کو جو اللہ کے اس احسان سے بھی آزاد کر دیا ہے اور اسے محض اور فقط کہہ کر اس کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ عظیم نعمت ہے جس سے ہم قربِ الٰہی حاصل کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اقرب ما یکون العبد من ربه وهو ساجد فاکثرو الدعاءَ اخرجه مسلم من حدیث ابی هریرة (مشکوة باب السجود الفصل الاول من کتاب الصلاة) انسان حالتِ سجدہ میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس سجدہ میں کثرت سے دعا کیا کرو۔ قال۔ اگر کوئی اول تا آخر خدا کے وجود کا انکار کرنے والا ہوتا تو اب تسلیم کرتا۔ (صفحہ39) اقول۔ یہ آپ کا ہمہ اوست والا عقیدہ ہے جس کی بنیاد دہریت پر رکھی ہوئی ہے جیسا کہ اوپر آپ کی گوہر افشانی سے ظاہر ہو رہا ہے۔ کی یہ دعویٰ قرآن و حدیث میں ہے؟ جو بھی عقل سلیم کے ساتھ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے گا اسے ان عقائد سے خلاصی حاصل
[1] الحجرات:17