کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 68
اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ [1] اور جس مال میں اس نے تمہیں وارث بنایا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀[2] اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔ ہمارا سارا وجود اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے تو پھر عبادت بھی اسی عطائی وجود سے کرنی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بایں الفاظ منقول ہے: رَبِّ اَعِنّیْ عَلٰی ذِکْرِكَ وَ شکْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ[3] اے اللہ مجھے اپنا ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام یہ دعا مانگتے تھے: رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ 19؀[4] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔ تو عبادت محض اس کی توفیق اور عنایت ہی سے ممکن ہے۔ مقرر صاحب اس بات سے آزاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے ہی کیا جو اس کے حضور پیش کریں ہر چیز تو اسی کی پیدا کردہ ہے باقی صرف یہ سر ہے سو اسے زمین پر رکھتے ہیں۔ قارئین کرام! بنظرِ انصاف ملاحظہ فرمائیے کہ یہ راستہ معرفت الٰہی کا ہے یا دھریت کا؟
[1] الحديد:7 [2] الذاريات:56 [3] مشکوۃ باب الدعا فی التشھد فصل دوئم [4] النمل:19