کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 67
اقول۔ یہ وہی وجودیوں والا عقیدہ ہے، علم کے معنی جاننا ہے، تو جو لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں کیا اسے بھی علیم کی تجلی کہیں گے؟ نعوذ باﷲ من ذلك۔ اس کے علاوہ کلماتِ کفریہ و شرکیہ اور گالیاں وغیرہ بھی تجلیات الٰہیہ کا اثر کہلائیں گی؟ اللہ کو کلیم کہہ کر دوسروں کا محتاج بنایا ہے اور ارادے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، کیا یہ بھی تجلی ہی کی برکاتا ہیں؟ انسان میں خواہشیں بھی ہوتی ہیں مثلاً بھوک پیاس وغیرہ۔
انسان میں نقص بھی ہوتا ہے اور عیب بھی، یہ کونسی تجلی ہے؟ اگر کہو گے کہ یہ تجلی اللہ تعالیٰ کی ہے تو پھر نعوذ باللہ، اللہ کی تجلی ناقص اور عیب دار ٹھہرے گی۔ اور اگر یہ کہو کہ یہ تجلی کسی اور کی ہے تو پھر شرک لازم آئے گا۔ یعنی اللہ کی تجلی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تجلی بھی ہم پر ظاہر ہوتی ہے؟ علاوہ ازیں اندھے بہرے، مجنون اور ضعیف و کمزور کے بارے میں کیا خیال ہے؟
قال۔ ہم اس ذات صاحبِ کائنات کو کچھ بھی نہیں دے سکتے ہمارے پاس ہے ہی کیا جو اسے دیں؟فرش تا عرش ساری کائنات اسی کی پیدا کردہ ہے تو ہم کونسی چیز اٹھا کر اسے دیں۔ اور تو پھر کچھ بھی نہیں۔ فقط ہمارا سر ہی ہے اس زمین پر جھکا سکتے ہیں اور تو کچھ بھی نہیں دے سکتے یہی دے سکتے ہیں اور کیا دیں؟ (صفحہ39)
اقول۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بطور تاوان وہ چیز دینی ہے جو اس کی پیدا کردہ نہ ہو۔ کیا یہ تمہارا ایمان ہے جس کی تلقین کر رہے ہو؟ کیا یہ سر جسے محض اور فقط کہہ رہے ہو کیا یہ سر اللہ کا پیدا کردہ اور عطا کردہ نہیں ہے؟ بات یہ ہے کہ تمہارا بنایا ہوا یہ قاعدہ ہی غلط ہے کیونکہ ہم جو کچھ دیں گے (یعنی خرچ کریں گے) اس کے عطا کردہ ہی سے دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ Ǽۙ[1]
[1] البقرة:3