کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 66
اس درخت کے پیغمبر تھے؟ (معاذ اللہ)۔
یہ ہے تمہارا باطنی علم، اللہ اور اس کے رسولوں کی عزت کا اچھا خیال رکھتے ہو، ایسا کہنے میں تمہارا کوئی قصور نہیں کیونکہ تمہارے بزرگ یہ فرما گئے ہیں:
تمام عالم کے اعیان ثابت تھے، باعتبار باطن قدیم ہیں اور باعتبار ظاہر حادث۔ (ناواقف) کہتے ہیں کہ مذہب صوفیہ مثل دہریوں کے ہے، یہ غلط محض ہے۔ صوفیہ باعتبار باطن (معنی) قدیم کہتے ہیں، بخلاف دہریہ کے کہ باعتبار اس صورت (موجودہ عالم) ظاہری کے قدیم کہتے ہیں۔ فرمایا کہ اِنِّی اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ جو طور پر آواز آئی تھی، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے باطن سے آئی تھی، سب انسانوں میں موجود ہے۔[1]
بقول ؎
جسے نواسہ سمجھا وہ نانا نکلا
تم نے تو موسیٰ علیہ السلام کے بجائے اس کلام کو درخت کا بولنا کہا ہے۔ علاوہ ازیں تم تمام موجودات کے قدیم ہونے کے قائل ہو اپنے دل میں خطرئہ دہریت محسوس کرتے ہو مگر پھر بھی علم باطنی اور علم ظاہری میں تاویل کر کے فرق کرتے ہو اور باطن کا سہارا لیتے ہو۔ جبکہ الباطن تو اللہ تعالیٰ کے اسما الحسنیٰ میں سے ہے تو پھر یہ بات تعجب انگیز نہیں کہ تم موجودات کو اللہ تعالیٰ کی صفت باطن میں شریک کرتے ہو۔
قال۔ علیم کی تجلی نے دماغوں میں علم دیا، کلیم کی تجلی نے زبان میں اثر دیا، مرید کی تجلی نے دل میں ارادہ ڈالا، قدیر کی تجلی نے بدن میں قوت ڈالی، حی کی تجلی نے ہمیں زندہ بنیا، وہی سمیع وہی بصیر وہی علیم وہی حی وہ مرید اور وہی قدیر ہے۔ اسی کے اثرات ہم پر وارد ہوئے (صفحہ38)
[1] شمائم امدادیہ صفحہ59