کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 65
ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرشتوں اور انبیا علیہم السلام کے بارے میں یہ فرما رہا ہے: وَمَنْ يَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّىْٓ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 29؀ۧ [1] اور ان میں سے جس نے یہ کہا کہ اللہ کے سوا میں بھی معبود ہوں تو اسے ہم دوزخ کی سزا دیں گے اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سا دیا کرتے ہیں۔ تو درخت یہ بات کس طرح کہہ سکتا ہے؟ اور تعجب ہے سننے والا موسیٰ علیہ السلام ہے، اگر درخت اس طرح کہتا تو اللہ کا پیغمبر اس پر خاموشی اختیار نہ کرتا۔ کیونکہ جب فرعون نے یہ دعویٰ کیا ’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی‘‘ تو موسی علیہ السلام نے اس کا مقابلہ کیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعون کو مع لشکر غرقاب کر دیا۔ تو جب درخت اس طرح کہتا تو موسیٰ علیہ السلام ضرور سمجھ جاتے کہ یہ آواز شیطان کی ہے جو مجھے گمراہ کرنا چاہتا ہے اور اس درخت کو جڑ سے اکھیڑ دیتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ با ادب کھڑے ہو کر اس آواز کو سنا اور ایمان لے آئے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اللہ رب العرش العظیم کا تھا۔ اس کے بعد بھی چند باتیں مزید مذکور ہیں ملاحظہ ہوں: وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى 13؀[2] اور میں نے تمہیں منتخب کر لیا ہے۔ تو جو حکم دیا جائے گا اسے سنو۔ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ[3] یہ دو دلیلیں تمہارے رب کی طرف سے ہیں انہیں لے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جاؤ۔ کیا یہ کلام بھی درخت کا تھا؟ اور خاکم بدہن، موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نہیں بلکہ
[1] الانبياء:29 [2] طٰہٰ:13 [3] القصص:32