کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 59
ملتا، اسٹیج خالی تھا جس پر ہم آکر بیٹھے ہیں اس کا معنی یہ کہ ہمارے وجود کو اس بابرکت ذات کے وجود سے نوری شعاعیں اور ذرات ملتے رہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمارا وجود برقرار رہے اگر ان کے آگے پردہ آجائے تو ہمارا وجود ختم ہوجائے(36-37) اقول: ایک طرف کہہ رہے ہو کہ نوری ذرات ملنے کی وجہ سے ہمارا وجود ہمیشہ بحال ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارا وجود ختم ہوجائے معلوم نہیں کہ آپ کی کونسی بات سچی ہے ؟پہلی یا دوسری ؟یا پھر دونوں ہی جھوٹی اور قابل رد ہیں کیونکہ آپ ہی کے بزرگ یہ قانون بنا گئے ہیں ’’اذا تعارضا تساقطا‘‘ متذکرہ عبارات میں مندرجہ ذیل باتیں قابل اعتراض ہیں: اولاً: ذات باری تعالی کے وجود سے ذرات ہم تک آتے ہیں یہ مسئلہ قرآن میں ہے یہ حدیث میں ، سلف صالحین میں سے کسی نے بتایا یا صرف آپ ہی کی طرف القا ہوا ہے؟ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۭ [1] وہ دھوکادینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں طمع کی باتیں ڈالتے رہتے ہیں ۔ ثانیاً: اگر اللہ تعالی کے نوری ذرات یہاں آتے ہیں تو پھر انہیں مخلوق اور محدث کہیں گے تو گویا آپ کا خدا متجزی یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا (سبحان الله عما یصفون) ثالثاً: اللہ تعالی کے لئے جسم بھی ثابت کیاگیا ہے۔ رابعاً: بتی کی شعاعوں کی مثال دی گئی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ذرات فانی ہوتے ہیں ۔ پھر اللہ کی صفات بلکہ ذات تک کوبھی فانی کہہ رہے ہو(نعوذ باللہ)۔ خامساً: اگر یہ کہو گے کہ اس نور سے مراد ہدایت کا نور ہے سو وہ تواتر چکا ہے ، وحی منقطع ہوچکی ہے اور نبوت کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہے اگر آپ نبوت کے جاری رہنے اور نور کے نازل ہونے کے قائل ہیں تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا جو چاہے کہتے رہو۔
[1] الانعام:12