کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 53
میں ہفتے میں تین بار ، پیر ، جمعرات اور جمعہ کو بیت اللہ کو کھولا جاتا تھا۔ کما ذکر الفاسی فی العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین ص60۔اور زچگی کا کوئی دن مقرر نہ تھا بلکہ مکہ شہر میں کتنے ہی بچوں کی پیدائش ہوتی ہونگی تو سب کو کس طرح وہاں لے جایا جاتا ہوگا جبکہ بیت اللہ تو بند رکھا جاتا تھا یہ باتیں حقیقت حال کے بالکل خلاف ہیں۔
قال: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے نور کی اس قدر تیز شعاعیں نظر آئیں کہ جنہوں نے درودیوار کو روشن کر دیااور ملک شام کے محلات صاف نظر آئے (ص 32)
اقول :یہ روایت بھی صحیح نہین ہے جیسا کہ علامہ سیوطی الخصائص الکبری ص 115ج1میں لکھتے ہیں :
کما روی ابن اسحق آمنة تحدث انها اتیت حین حملت فقال له انك قد حملت بسید هذه الامة وآیة ذلك ان یخرج معه نور یملا قصور بصری من ارض الشام فاذا وقع فیسمیه محمد.
ابن اسحق روایت کرتے ہیں کہ بی بی آمنہ بیان کرتی ہیں کہ زمانہ حمل میں مجھے خوشخبریاں دینے والے آتے رہتے تھے انہی میں سے ایک نے کہا کہ تمہارے پیٹ میں اس امت کا سردار ہے اور اس بات کی نشانی یہ ہے کہ وضع حمل کے وقت ایک نور نکلے گا جو ملک شام اور اس کے محلات کو روشن کردے گا جب وہ پیدا ہوتو اس کا نام محمد رکھنا۔
دیکھئے! یہاں نہ سند ذکر ہے اور نہ ہی کسی کتاب کا حوالہ لہذا یہ روایت بھی قابل اعتبار نہیں ۔ ہاں مشکوۃ میں ایک صحیح روایت بایں الفاظ موجود ہے:
عن العرباض (رضی الله عنه) بن ساریة عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم انه قال انی عند الله مکتوب خاتم النبیین و ان آدم لمنجدل فی طینته و سا خبرکم