کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 44
زمین پر رہتے ہیں اور زمینی پیداوار کھاتے ہیں مگر من تو آسمان سے نازل کردہ چیز تھی یہ تو زمین کی پیداوار نہ تھی ۔ علاوہ ازیں یہ کہ شہداء کی ارواح کو جنت میں سبز پرندے کی شکل دے کر چھوڑ دیاجاتا ہے۔ کما فی الحدیث و قال تعالی عَنْدَ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦٩ۙ[1]
کیا اس رزق کو بھی زمینی پیداوار کہیں گے؟
قال۔ جب کوئی چیز ترقی کر تی ہے تو اپنے ارد گرد کے ماحول کی کچھ چیزوں کو اپنے وجود میں شامل کر لیتی ہے جبھی ترقی ہوتی ہے۔ (ص26)
اقول۔ یہاں انسان کی کونسی ترقی مراد ہے، جسمانی یا روحانی؟ اگر جسمانی ترقی مراد ہے تو وہ چار عناصر تو پہلے ہی اس میں تسلیم کئے ہیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً [2]
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں (ابتداء میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔
جب ماحول میں تمام اشیاء موجود ہیں تو پھر ترقی کی راہ مسدود کیوں ہوئی؟ کمزوری کیوں آئی؟ پیرانہ سالی کا شکار کیوں ہوا؟
اور اگر یہاں روحانی ترقی مراد ہے تو تمہارے بقول ہمارے وجود کو اس ذات بابرکت کے نوری وجود سے ایسے ذرات ملتے رہتے ہیں کہ جن سے ہمارا وجود ہمیشہ جوان رہتا ہے (صفحہ37)
اس عبارت میں جو گوہر افشانیاں کی گئی ہیں ان کا ذکر اپنے اپنے موقع پر آئے گا (ان شاء اللہ)۔ مگر اتنا تو بتاؤ کہ کیا ان ذرات کو انسان کی کشش کھینچ کر لاتی ہے؟ معلوم نہیں
[1] آل عمران:169
[2] الروم:54