کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 3
ہے وہ عالم حقیقی ہے اور یہ عالم صرف اس کا پَر تُو ہے ۔ افلاطون کے اس فلسفہ کی نشاۃِ ثانیہ بعد کے فلاسفروں کے ہاتھوں ہوئی جن کا امام فلاطینس تھاان میں سے ایک فلاسفر نے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں کے برہمنوں سے ہندی تصوف سیکھا۔ فلاطینس رومی لشکر کے ساتھ ایران گیا وہاں کے مغوں سے مجوسی تصوف کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان فلاسفروں نے فلاطینس کی زیر سرکردگی افلاطون کے فلسفہ ء قدیم کو ان ہندی اور ایرانی تصورات کے ساتھ ملا کر ایک جدید قالب میں ڈھالا۔اس کانام نوفلاطونی فلسفہ ہے اس فلسفہ کامرکز اسکندریہ تھا جہاں فیلو کا یہودی تصوف اس سے متاثر ہوا۔ اس کا سب سے پہلا تأثر یہ پیدا ہوا کہ تورات کی شریعت معرفت اور حقیقت میں بدل گئی ۔
یہودیوں کی ایک اہم کتاب زہار میں لکھا ہے:
تورات کی روح درحقیقت اس کے باطنی معنوںمیں پوشیدہ ہے انسان ہر مقام پر خدا کا جلوہ دیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ تورات کے ان باطنی معانی کا راز پا جائے۔
قارئین محترم! یہی بات اسلامی تصوف کے دعویدار بھی کرتے ہیں ۔ قدر آفاقی کی کتاب اسلامی اخلاق اورتصوف صفحہ 168پرلکھا ہے :بخلاف اس کے تصوف میں اس مسئلہ کا علم مشاہدہ اور کشف کی حیثیت سے ہوتا ہے یعنی صوفی کو چاروں طرف خدا ہی نظر آتا ہے اس پر خشوع و خضوع ہیبت ، خوف و ادب و انقیاد کی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جو کسی طرح علم ظاہری سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہی خدا کو دیکھنے اور باطنی علوم کی باتیں دونوں تعلیموں میں یکساں ہیں ان باطنی معانی کی تلاش کی تردید و مذمت میں علامہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے یہ ایک نہایت (subtel) طریق تنسیخ کا ہے اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کر سکتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو ،