کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 24
گرتے پیر مغاں گوید ۔والی ذہنیت جس کے بعد پیر صاحب میں اور ارباب من دون اللہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا فکر و نظر مفلوج قوت تنقید ماوف علم و عقل کا استعمال موقوف اور دل و دماغ پر بندی شیخ کا ایسا مکمل تسلط کہ گویا شیخ ان کا رب ہے اوریہ اس کے مربوب پھر جہاں کشف و الہام کی بات شروع ہوئی معتقدین کی ذہنی غلامی کے بند اور زیادہ مضبوط ہونے شروع ہوجاتے ہیں اس کے بعد صوفیانہ رموز و اشارات کی باری آتی ہے جس سے مریدوں کی قوت واہمہ کو گُو تازیانہ لگ جاتا ہے اور وہ انہیں لے کر ایسی اڑتی ہے کے بے چارے ہر وقت عجائبات و طلسمات ہی کے عالم میں سیر کرتے رہتے ہیں واقعات کی دنیا ٹھہرنے کا موقع غریبوں کو کم ملتا ہے مسلمانوں کے اس مرض سے نہ حضرت مجدد ناواقف تھے نہ شاہ صاحب دونوں کے کلام میں اس پر تنقید موجود ہے مگرغالباً اس مرض کی شدت کا انہیں پورا اندازہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیماروں کو پھر وہی غذا دے دی جو اس میں مہلک ثابت ہوچکی تھی اور اس کانتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ دونون کا حلقہ پھر اسی پرانے مرض سے متاثر ہوتاچلا گیا اگرچہ مولانا اسماعیل شہیدرحمہ اللہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر وہی روش اختیار کی جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تھی لیکن شاہ ولی اللہ کے لٹریچر میں تو یہ سامان موجود ہی نہ تھا جس کا اشارہ شاہ اسمعیل شہید کی تحریروں میں بھی باقی رہا اور پیری مریدی کاسلسلہ بھی سید صاحب کی تحریک میں چل رہا تھا اس لئے مرض صوفیت کے جراثیم سے یہ تحریک پاک نہ رہ سکی حتی کہ سید صاحب کی شہادت کے بعد ہی ایک گروہ وہ ان کے حلقہ میں ایسا پیدا ہوگیا جو شیعوں کی طرح ان کی غیبوبیت کا قائل ہوا اور ابن تک ان کے ظہور ثانی کا منتظر ہے۔ اب جس کسی کو تجدید دین کے لئے کام کرنا ہواس کے لئے لازم ہے کہ متصوفین کی زبان و اصطلاحات سے رموز و اشارات سے لباس و اطوار سے پیری مریدی سے اور ہر اس چیز سے جو اس طریقہ کی یاد تازہ کرنے والی ہو مسلمانوں کو اس طرح پرہیز کرئے جیسے ذیابیطس کے