کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 23
تک کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پورا اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ ان کو پھر وہی غذا دے دی ہے جس سے مکمل پرہیز کرنے کی ضرورت تھی حاشا کہ مجھے فی نفسہ اس تصوف پر اعتراض نہیں ہے جو ان حضرات نے پیش کیا وہ بجائے خود اپنی روح کے اعتبار سے اسلام کا اصلی تصوف ہے اور اس کی نوعیت احسان سے کچھ مختلف نہیں ہے لیکن جس چیز کو میں لائق پرہیز کہہ رہاہوں وہ متصوفانہ رموز و اشارات اور متصوفانہ طریقہ سے مشابہت رکھنے والے طریقوں کو جاری رکھنا یہ ظاہر ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف اس خاص قالب کو محتاج نہیں ہے اس کے لئے دوسرا قالب بھی ممکن ہے اس کے لئے زبان بھی دوسری اختیار کی جاسکتی ہے رموز و اشارات سے بھی اجتناب کیا جاسکتا ہے پیر مریدی اور اس سلسلے کی تمام عملی شکلوں کو بھی چھوڑ کر دوسری شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں پھر کیا ضرورت ہے اس پرانے قالب کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے جس میں مدتہائے دراز سے جاہلی تصوف کی گرم بازاری ہورہی ہے اسکی کثرت اشاعت نے مسلمانوں کو جن سخت اعتقادی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنی بھی تعلیم دے بہرحال یہ قالب استعمال کرتے ہی وہ تمام بیماریاں پھر عود کر آتی ہیں جو صدیوں کے رواج عام سے اسکے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔
پس جس طرح پانی جیسی حلال چیز بھی اس وقت ممنوع ہوجاتی ہے جب وہ مریض کے لئے نقصان دہ ہو اسی طرح یہ قالب بھی مباح ہونے کے باوجود اس بناء پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہوگیا ہے اس کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کاچسکا لگا گیا ہے اور اس کے قریب جاتے ہی ان مزمن مریضوں کو پھر وہی چینا بیگم یاد آجاتی ہے جوصدیوں ان کو تھپک تھپک کر سلاتی رہی ہیں بیعت کا معاملہ پیش آنے کے بعد کچھ دیر نہیں لگتی کہ مریدوں میں وہ ذہنیت پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے جو مریدی کے ساتھ مختص ہوچکی ہے یعنی سجادہ رنگین کن