کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 2
موضوع و خود ساختہ روایا ت کے ذریعے اسلام میں داخل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
یہود و مجوس کے گٹھ جوڑ اور دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں واضح اور بیّن دین اسلام کے مساوی ایک نیا مذہب تصوف کے نام سے وجود میں آیا۔
تصوف کیا ہے ؟اس کی تاریخ ،صحیح تعریف اور مأخذ کیا ہے؟اس بارہ میں تو اہل تصوف کو بھی صحیح طرح کچھ معلوم نہیں ہے، مختلف تعریفات ہیں ۔
ابو ریحان البیرونی نے کتاب الہند میں لکھا ہے کہ تصوف اصل ’’س‘‘ سے تھا یعنی سوف جس کا معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں پھر استعمال کے بعد یہ ’’ص‘‘ سے صوف بنا۔ صوفی بمعنی حکیم و دانا ۔[1]
نوالڈکہ نے اس اشتقاق کو رد کیا ہے کہ یونانی زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سوفوس اور صوفی کی درمیانی صورت کہا جاسکے۔[2]
اسامی محققین صوفیاء نے تصوف کو صوف سے مشتق مانا ہے ۔(اسلامی اخلاق اور تصوف ص 169)۔(اگر یہ اسلامی چیز ہوتی تو قرآن یا حدیث ، صحابہ کرام ،تابعین سے اس کی واضح تعریف منقول ہوتی ۔ بقول علامہ اقبال : اس میں ذرا شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے ۔[3]
بعض اہل قلم نے تصوف کے بارے میں کچھ اسطرح اظہار خیال کیا ہے:
حقیقی تصوف یہودیت سے شروع ہوا ہے جب ان کے مذہبی پیشواؤں نے اسکندریہ میں یونانی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور وہاں اس فلسفہ اور اپنے معتقدات کے امتزاج سے ایک نیا مذہب ایجاد کیا ۔ فیلو اس مذھب کا امام ہے جبکہ تصوف کا ابوالأ باء دراصل افلاطون کو کہا جاسکتا ہے جس نے سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا تھا۔کہ اس عالم محسوس کے اوپر ایک اورعالم مثال
[1] الغزالی 260
[2] اردو معارف اسلامیہ جلد 7صفحہ 418
[3] سید سلمان ندوی کے نام خط 1917ء