کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 17
توتو علم بیکار ہے بلکہ حقیقت پرستوں کے لئے باعث ننگ و عار ہے۔(ص457-56)
اس علم دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تصوف اسلام کے مفہوم کی حقیقی تعبیر بننے کے بجائے ایک متوازی نظام زندگی بن گیا۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ اصطلاحات کی بابت کہتے ہیں۔
زُھد: اسلام میں حُب دنیا سے پرہیز کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مال و دولت سے مکمل اجتناب برتا جائے لیکن صوفیاء کے ہاں زہد یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں خواہ مال حلال طریقہ سے کمایا اور نیک راہ میں خرچ کرے فقراء کیساتھ جنت میں نہ جاسکے گا (ص272)صوفیاء کے خیال میں مال نیک مقاصد کے لئے جمع کرنا بھی توکل کے خلاف اور اللہ کے ساتھ سوء ظن ہے ۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اس نظریئے کی وجہ سے مال سے دستبردار ہوگئے انہیں پھر صدقات پربھروسہ کرنا پڑا اب تو صوفیاء کمانے کی طاقت کے باوجود مسجدوں اور خانقاہوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کی خیرات پر بھروسہ کرتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ کوئی مالدار صدقہ لے کر آئے اور دستک دے۔ یہ لوگ رسم زہد کی جان کاریوں کا بری طرح شکار ہیں۔ تصوف کی رسم بھی نبھانی ہے اور مال بھی جمع کرنا ہے یہ ان عطیات سے دولت اکٹھی کرتے ہیں مثلاً ابو الحسن منتظم رباط ابن اللحیان کے بسطانی تھے اور زندگی بھرصوف پوش رہے مرتے تو چار ہزار دینار ترکہ چھوڑا ۔ صوفیاء کی یہ روش سراسر خلاف اسلام ہے اللہ نے خو دمال کی حفاظت کا حکم دیا ہے ۔لا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاماً۔(ترجمہ) اپنے مال بیوقوفوں کے سپرد نہ کرو مال کو اللہ نے تمہارے لئے قوت (کا موجب) بنایا ہے۔
لباس کے معاملہ میں بھی صوفیاء کا مسلک اسی قسم کا ہے اسلاف تنگدستی کی بناء پر پیوند لگے ہوئے معمولی اور بعض اوقات ایک جوڑا ہونے کی وجہ سے میلے کپڑے پہنتے ہیں لیکن صوفیاء مختلف رنگوں کے کپڑے لیتے ہیں اور ان کے ٹکڑوں کو جوڑ کر لباس بنا لیتے ہیں تاکہ