کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 16
و مخلوق کے تقرب کو لا یعنی سمجھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ نظریاتی طور پر تشبیہ اور عمل ہر لحاظ سے ملامست کے حلول کے مترادف ہے۔اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی تصوف پر تنقید کی ہے (173)
ابن الجوزی رحمہ اللہ کی تنقید دیگر تمام ائمہ کی بنسبت زیادہ مفصل اور عام فہم ہے ۔قدر آفاقی لکھتے ہیں :
ابن الجوزی رحمہ اللہ سے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی تصوف کو ہدف تنقید بنایا لیکن ان کی تنقید فلسفہ تصوف اور تصوف کی فکری و نظری اساسوں پر تھی۔ ان کے مقابلہ میں ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تصوف کا یاک معاشرتی ادارے اور ایک مخصوص طرز زندگی کی حیثیت سے جائزہ لیا ابن تیمیہ کا رول ایک فلسفہ اور مفکر کا ساتھا اور ابن الجوزی کا ایک معاشرتی مصلح کا سا(ص226)۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے صوفیا کے اقوال ، اعمال اور اصطلاحات کاموازنہ قرآن ، حدیث ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل و زندگی سے کیا ہے او ریہ ثابت کیاہے ان کے تمام اقوال و اعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اسوہ حسنہ کے خلاف ہیں اس کی وجہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ صوفیاء کے عدم توازن کا اصل سبب علم دین سے ان کی غفلت ہے فرماتے ہیں :ترجمہ ابلیس نے صوفیاء پر اس طرح جادو چلایا کہ علم سے انہیں روک دیا اور انہیں باور کرایا کہ مقصود اصلی تو عمل ہے پھر جب علم کا چراغ بجھ گیا تو وہ اندھیرے میں خبط مارنے لگے۔(252)
صوفیاء کی ایک جماعت نے تو اس سلسلہ میں اس حدتک غلو کیا کہ علم شریعت اور طریقت و تصوف کو جداجدا بلکہ متضاد قرار دیا یہاں تک کہ اپنی کتابیں جو علم کاخزانہ تھیں ، دفن کردیں یا دریا بُرد کر دیں یا جلا ڈالیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب مقصود اصلی عمل ہے