کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 12
احمد رضا خان اس کی حمایت کرتے ہیں اشرف علی تھانوی انکی تنزیہ و توصیف میں کتابیں لکھتے ہیں اور امداد اللہ مہاجر مکی انکے نظریہ کو حق قرار دیتے ہیں تصوف میں حلول کا عقیدہ بھی مسلم ہے اس کے بارہ میں کیلانی صاحب فرماتے ہیں ۔خدا کے کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاری میں بھی پایا جاتا تھا ۔ و قالت الیهود عزیر ابن الله و قالت النصاری المسیح ابن الله.......
سینٹ پال (مشہور فلسفی صوفی ) کا قول ہے ہم ذات باری تعالیٰ میں مسلسل تحلیل ہوتے رہتے ہیں جب ایک شے دوسرے میں مدغم ہوجائے تو دونوں کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا میں بھی خدامیںتحلیل ہو رہا ہوں اور وہ ذات برحق مجھ سے ہم آہنگ ہورہی ہے اب مجھ میں اور خالق کائنات میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہااب ہم دونوں ایک ہی ہیں اس قول سے حلول اور وحدۃ الوجود کس طرح مترشح ہورہا ہے سینٹ پال عیسائی کی طرح ایک صوفی عبدالکریم جیلی حلول کے متعلق اپنا ذاتی تجربہ ان الفا ظ میں بیان کرتا ہے میں نے اپنا وجود کھو دیا ہے پھر وہ (یعنی اللہ ) میری طرف سے مجھ میں قائم مقام ہوا یہ عوض جلیل القدر تھا بلکہ بعینہ میں ہی تھا پس میں وہ تھا اور وہ میں تھا وجود مفرد تھا جس کے لئے کوئی جھگڑنے والا نہیں تھا میں اس کے ساتھ اس میں باقی رہا ……میں نے اپنی چشم حقیقت سے اپنے آپ کو حق دیکھا (انسان کامل ص 108)ہندوستان میں بھی یہ نظریات قدیم سے پائے جاتے ہیں ہندوؤں میں ایسے انسان جو جس کے بدن میں خدا اتر آتا ہے اوتار کہتے ہیں رام چندرجی اورکرشن ان کے ایسے ہی اوتار ہیں جنہیں یہ لوگ خدائی صفات کے حامل قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں میں اس عقیدہ کی باز گشت ان الفاظ میں سنائی دیتی ہے۔
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
اتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر