کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 101
واقعہ پیش کیا جو نبوت آنے کے کم از کم دس گیارہ سال بعد وقوع پذیر ہوا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قتل والا معاملہ واقعہ ہجرت کے بعد رونما ہوا۔ اور سیدنا عثمان رضی اللہ کا قصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کئی سال بعد پیش آیا ۔ کیااس وقت تک یہ دعوی ’’محمد رسول اللہ ‘‘ ثابت نہیں ہوا تھا؟اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس سے پہلے جتنے بھی آئے نعوذ باللہ وہ اندھے مقلد تھے کہ انہیں کوئی ثبوت نظر نہیں آیا پھر بھی اسے قبول کیا ؟پتہ نہیں مقرر صاحب پر اس وقت معرفت اور باطنی علم کا کونسا نشہ سوا تھا کہ کیا کچھ کہہ گئے ؟پتہ نہیں کہ انہیں خود بھی معلوم ہے کہ کیا کہہ رہاہوں؟ ان کنت لا تدری فتلك مصیبة و ان کنت تدری فالمصیبة اعظم حالانکہ حقیقت حال ا سکے بالکل برعکس ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے: و کذالك جعلنکم امة وسطا لتکونوا شهدآء علی الناس و یکون الرسول علیکم شهیدا[1] اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر(علیہ السلام ) تم پر گواہ بنیں۔ مذکورہ آیت کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں یہ دنیا کے لئے گواہ ہیں اوران کی سیرت دوسروں کے لئے نمونہ ہے مگر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ اور گواہ ہیں مقرر صاحب کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیئے۔ قال:اگر یہودی یہ کہیں کہ ہمیں اس بات سے کیاواسطہ؟(ص59) اقول: تورات ، انجیل اور قرآن کریم میں اس طرح نہیں کہاگیا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گواہ ہیں بلکہ مقصود ان کی توصیف ہے مجموعی اعتبار سے ان کی تین عظیم
[1] البقرۃ:143