کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 99
الحارث الحارثی البخاری المعروف بالأستاذ، شاگرد ابی حفص الصغیر ابن ابی حفص الکبیر، شاگرد الامام محمد بن الحسن نے ’’اپنی مسند‘‘ میں اس طرح بیان کی ہے: ’’حدثںا محمد بن ابراهيم بن زياد الرازي حدثنا سليمان بن الشاذكوني قال سمعت سفيان بن عيينة يقول اجتمع ابو حنيفة والأوزاعي في دار الحناطين بمكة – الخ‘‘ سید مرتضیٰ الزبیدی نے اپنی کتاب ’’عقود الجواهر المنيفة في أدلة الإمام ابي حنيفة‘‘ میں نقل کیا ہے‘‘۔ [1]
افسوس کہ شیخ لکھنوی، علامہ سندھی پرجوش تعاقب میں یہ بتانا بھول گئے کہ حارثی کا یہ طریق اسناد قطعاً ناقابل اعتبار ہے۔ اس کی پہلی علت خود ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الخلیل الحارثی البخاری المعروف بالاستاذ کی شخصیت ہے، لیکن اسے علمائے حنفیہ کی بد ذوقی یا تحقیق کے نام سے چڑھ ہی کہیے کہ اپنے مسلک کے دفاع کی خاطر تمام حقائق اور ائمہ فن کی آراء کو پس پشت ڈال کر اکثر حضرات حارثی کی مدح خوانی میں مصروف نظر آتے ہیں، چنانچہ مشہور حنفی عالم محمد عبدالقادر قرشی (775ھ) فرماتے ہیں:
’’سمعانی نے حارثی کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ استاذ کے لقب سے مشہور تھے اور حدیث میں مکثر تھے۔ ابو عبداللہ ابن مندہ نے ان سے روایت کی ہے اور بیان کیا ہے کہ غیر ثقہ تھے، ان کے پاس منکرات تھیں۔ میں کہتا ہوں کہ انہوں نے ’’کشف الآثار فی مناقب ابی حنیفہ‘‘ اور ’’مسند ابی حنیفہ‘‘ نامی کتابیں تصنیف کی تھیں۔ ذہبی نے ’’میزان‘‘ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ بخاری کا قول ہے کہ فقیہ تھے، ان سے اکثر ابن مندہ نے روایت کی ہے، وہ صاحب تصنیف تھے۔ ابن الجوزی سے منقول ہے کہ ابو سعید رواس نے انہیں حدیث گھڑنے کے لئے متہم کیا ہے۔ ذہبی نے بھی ’’مؤتلف‘‘ میں ذکر کیا ہے اور انہیں شیخ حنفیہ کہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عبداللہ بن محمد حارثی، امام ابن الجوزی اور ابو سعید رواس سے بڑھ کر اور جلیل القدر تھے‘‘۔[2]
اور عصر حاضر کے مشہور حنفی عالم عبدالفتاح ابو غدہ فرماتے ہیں:
’’الحارثی کبار فقہاء حنفیہ میں سے مشہور حافظ اور امام تھے۔ ذہبی نے ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘[3]میں قاسم ابن اصبغ کے ترجمہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور فرماتے ہیں: ’’340ھ میں ماوراء النہر کے عالم و محدث امام علامہ ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب بن الحارث الحارثی الملقب بالأستاذ جامع ’’مسند ابی حنیفۃ الإمام‘‘ کا انتقال ہوا، ان کی عمر 82 سال تھی‘‘۔[4]لیکن جناب حسن نعمانی صحاب (محشی ’’الجواهر
[1] الاجوبۃ الفاضلۃ للکنوی: ص 213-214
[2] الجواھر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ للقرشی: 1/289-290
[3] تذکرۃ الحفاظ للذھبی: ص 854
[4] التعلیقات الحافلۃ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لابی غدۃ: ص 214، التعلیقات علی دراسات اللبیب للنعمانی: ص 205