کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 98
یعنی ’’ابو المحاسن مرغینانی نے اس حکایت کو مرسلاً بیان کیا ہے اور اس میں عبداللہ بن مسعود کی جگہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے‘‘۔ علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ الرواۃ کو ترجیح دی جس طرح کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے علو الاسناد کو ترجیح دی تھی اور ہمارے نزدیک یہی فقہ الرواۃ کامیاب مذہب ہے‘‘۔ [1] ابن امیر الحاج الحلبی نے بھی ’’حلية المجلي شرح منية المصلي‘‘[2]میں یہی بات لکھی ہے، لیکن علامہ محمد معین سندھی رحمہ اللہ اس مناظرہ پر بحث کرتے ہوئے علامہ ابن ھمام پر یوں تعاقب فرماتے ہیں: ’’اغراب البدیع میں سے اکثر حنفیہ کا ابن عیینہ رحمہ اللہ کی حکایت مناظرہ سے حدیث رفعات کا معارضہ: یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ دارالحناطین، مکہ میں جمع ہوئے – اس مناظرہ کے متعلق ابن ھمام کا یہ قول۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ الرواۃ کو ترجیح دی جس طرح کہ اوزاعی رحمہ اللہ نے علو اسناد کو ترجیح دی تھی اور ہمارے نزدیک یہی کامیاب مذہب ہے۔ بوجوہ متعددہ غرائب میں سے ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حکایت سفیان بن عیینہ سے معلقاً مروی ہے۔ میں نے کسی کو اس کی سند بیان کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر کسی کے پاس اس کی سند ہو تو پیش کرے تاکہ ہم بھی اس کے رجال کو پرکھ سکیں۔ اس طرح کی معلقات کسی بھی چیز میں لائق احتجاج نہیں ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے محمد معین کہ جو احتجاج مسئلہ کے لئے ہر قوی و ضعیف چیز کا اعتبار کرتے اور اس سے شواہد پیدا کرتے ہیں، تخریج ھدایۃ میں اس حکایت سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے الخ‘‘۔ [3] علامہ عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری اور علامہ محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہما اللہ نے شیخ سندھی رحمہ اللہ کے اس کلام کو توقیراً نقل کیا ہے، [4] لیکن جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ، علامہ سندھی رحمہ اللہ پر نقد کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں: ’’یہ بات عوام میں مشہور ہے کہ یہ مناظرہ کہ جس کی کوئی سند موجود نہیں ہے نہ ’’صحیح‘‘ ہے اور نہ ’’ضعیف‘‘ حتی کہ صاحب ’’الدراسات‘‘ فرماتے ہیں: میں نے کسی کو اس حکایت کی سند بیان کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اگر کسی کے پاس اس کی سند ہو تو لا کر پیش کرے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس مناظرہ کی سند ابو محمد عبداللہ بن محمد بن
[1] فتح القدیر لابن ھمام: 1/219، الاجوبۃ للکنوی: ص 212، قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: ص 299 [2] کما فی الاجوبۃ: ص 212 و قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: 299 [3] دراسات اللبیت فی الأسوۃ الحسنۃ بالحبیب للشیخ محمد معین السندی: ص 205 [4] مقدمۃ تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری: 161-162، التعلیقات السّلفیہ علی سنن النسائی للفوجیانی: 1/102