کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 97
ان تمام چیزوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اصولیین اور فقہائے حنفیہ کی شرط ’’فقہ راوی‘‘ نیز جناب اصلاحی صاحب کی وضع کردہ اصطلاحات ’’فہم حدیث‘‘ اور ’’تدبر حدیث‘‘ کے مابین اصولی اور فنی اعتبار سے کوئی فرق نہیں بلکہ عین مماثلت ہے۔
فقہ الراوی اور مناظرہ بین امام ابی حنیفہ و امام اوزاعی رحمہما اللہ
’’فقہ راوی‘‘ کی مذکورہ بالا شرط کو مؤکد کرنے کے لئے عموماً علمائے حنفیہ کی جانب سے امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی رحمہما اللہ کے مابین ہونے والے ایک مناظرہ کو بیان کیا جاتا ہے جو اس طرح ہے:
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ دار الحناطین (مکہ) میں جمع ہوئے تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال کیا: تم لوگ نماز میں رکوع میں جاتے ہوئے اور اس کے بعد رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اس لئے کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔ اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: صحیح کس طرح نہیں ہے جبکہ مجھ سے زہری رحمہ اللہ نے عن سالم عن ابیہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث روایت کی ہے کہ آپ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین فرماتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے عن ابراہیم عن علقمہ و الأسود عن عبداللہ بن مسعود روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی افتتاح کے علاوہ رفع یدین نہیں فرماتے تھے اور نہ اس میں سے کوئی چیز دہراتے تھے۔ اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: میں آپ کو عن زہری عن سالم عن ابیہ کے طریق سے حدیث سناتا ہوں اور آپ مجھے عن حماد عن ابراہیم سے روایت بیان کرتے ہیں؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: حماد زہری سے زیادہ فقیہ تھے، ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ اور علقمہ عبداللہ بن عمر سے زیادہ فقیہ تھے۔ اگر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے صحبت نبوی پائی ہے تو انہیں صحبت کی فضیلت ہے لیکن اسود کو تو بڑی فضیلت ہے اور عبداللہ بن مسعود تو عبداللہ ہی ہیں۔ یہ سن کو اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہو گئے۔‘‘ [1]
موفق بن احمد اس مناظرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أورد هذه الحكايةأبو المحاسن المرغيناني مرسلة فذكر عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه مكان عبداللّٰه بن مسعود وله وجه فإن عمر رضي اللّٰه عنه روي هذا الحديث‘‘ [2]
[1] فتح القدیر لابن ھمام: 1/219، عقود الجواھر المنیفہ للسید مرتضیٰ الزبیدی: 1/60-61، جامع المسانید للخوارمی: 1/352، مناقب الامام الأعظم للموفق المکی: 1/130، المناقب للکردی: 1/174، المبسوط للسرخسی: 1/14، إعلاء السنن للتھانوی: 3/75، معارف السنن للبنوری: 2/499، الاجوبۃ الفاضلۃ للکنوی: ص 213
[2] مناقب الامام الاعظم للموفق: 1/130