کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 96
جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی صاحب (م 1304ھ) فرماتے ہیں: ’’جان لو کہ فقاہت کے اعتبار سے ترجیح مطلقاً واقع ہے۔ بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ یہ ترجیح دو بالمعنی خبروں میں معتبر ہے، باللفظ خبروں میں نہیں ہے‘‘۔ [1] پھر مختلف علماء کے اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’علماء کی یہ تمام عبارتیں ترجیح بالفقہ کے معتبر ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس بارے میں تین مذاہب ہیں: (1) اس کا مطلقاً عدم اعتبار، (2) اس کا مطلق اعتبار اور (3) بالمعنی مروی احادیث میں اس کا معتبر ہونا باللفظ احادیث میں معتبر نہ ہونا – علمائے حنفیہ اور بعض محدثین نے اسی آخری مذہب کو اختیار کیا ہے‘‘۔ [2] جناب خلیل احمد سہارنپوری صاحب فرماتے ہیں: ’’والأصل عندنا أن الراوي إن كان معروفا بالعدالة والضبط دون الفقه والإجتهاد مثل هريرة و أنس بن مالك فإن وافق حديثه القياس عمل به و إلا لم يترك إلا لضرورة و انسداد باب الرأي و تمامه في أصول الفقه‘‘ [3] یعنی ’’ہمارے نزدیک قاعدہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت، حفظ اور ضبط میں تو معروف ہو لیکن فقاہت و اجتہاد کی دولت سے محروم ہو مثال کے طور پر حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس بن مالک ہیں، تو اگر ان کی حدیث قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت اس کو چھوڑ دیا جائے گا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتابوں میں موجود ہے‘‘۔ جناب ظفر احمد عثمانی تھانوی صاحب نے بھی ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘[4]میں مختلف علماء و فقہاء کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کی ترجیح میں اپنے حنفی اصول ’’فقہ الراوی‘‘ کا اثبات کیا ہے۔ اسی طرح انجمن اسوہ حسنہ پاکستان کے مؤسس جناب حبیب الرحمان صدیقی کاندھلوی صاحب فرماتے ہیں: ’’—امام ابو حنیفہ صحت روایت کے لئے راوی کا فقیہ ہونا شرط قرار دیتے ہیں کیونکہ اکثر روایات بالمعنی مروی ہوتی ہیں اور معنی کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے فقیہ ہونا ضروری ہے، واللہ اعلم‘‘۔[5] (اس حنفی اصول کی مزید تفصیلات کے لئے حاشیہ [6] کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی)۔
[1] کما فی الاجوبۃ الفاضلۃ للکنوی: 211-212 [2] نفس مصدر: ص 215 [3] حاشیہ بخاری شریف للسہارنفوی: 1/288 [4] قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: ص 297-299 [5] مذہبی داستانیں اور اس کی حقیقت: 2/426 [6] فواتح الرحموت: 2/144-145، شرح الکوکب المنیر: 2/417، نہایۃ السؤال: 2/116 المحصول: ½ ص 607-608