کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 95
اور اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں: ’’ووجه ذلك أن ضبط حديث النبي صلي اللّٰه عليه وسلم عظيم الخطر وقد كان النقل بالمعني مستفيضا فيهم فإذا قصر فقه الراوي عن درك المعاني لحديث النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و إحاطتها لم يؤمن أن يذهب عليه شيء من معانيه‘‘ [1] یعنی ’’اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ضبط کا معاملہ نہایت پرخطر ہے۔ صحابہ کرام میں نقل بالمعنی کا عام چلن تھا، پس اگر راوی کا تفقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے معانی کے ادراک اور اس کے احاطہ سے قاصر ہو تو خطرہ ہے کہ حدیث کے معنی کی ادائیگی میں کوئی لغزش ہو گئی ہو‘‘۔ علامہ بزدوی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’قصرت رواية من لم يعرف بالفقه عند معارضه من عرف بالفقه في باب الترجيح و هذا مذهبنا في الترجيح‘‘ [2] اور ’’اصول الفقہ‘‘ للبزدوی کے حاشیہ میں مرقوم ہے: ’’فقہ الراوی سے عدم ترجیح کے متعلق محدثین کا مذہب قیاس پر مبنی ہے کیونکہ ان کے نزدیک بالمعنی نقل حدیث اصلاً درست نہیں ہے، چنانچہ نقل حدیث میں فقیہ و غیر فقیہ دونوں برابر ہیں۔ ایک جماعت کا قول ہے کہ اس ترجیح کا اعتبار بالمعنی مروی دو خبروں میں کیا جائے گا لیکن باللفظ روایت میں اس کا اعتبار نہیں ہو گا۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ ترجیح مطلقاً واقع ہوتی ہے‘‘۔ [3] ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے علمائے حنفیہ کے نزدیک مذہب منصور: اکثریت نہیں افقہیت ہے‘‘۔ [4] جناب بحر العلوم لکھنوی صاحب ’’تنویر المنار‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وہ حدیث جس کے رواۃ افقہ ہوں، عمل کے معاملہ میں اس حدیث سے مقدم ہے جس کے رواۃ اس جیسے نہ ہوں‘‘۔ [5]
[1] الاحکام للآمدی، اصول الفقہ للبزدوی: 2/699 [2] نفس مصدر: 2/397 [3] حاشیہ اصول الفقہ: 2/397 [4] شرح نخبۃ الفکر لعلی القاری: ص 104 [5] کما فی الاجوبۃ الفاضلۃ للکنوی: ص 212