کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 94
اداء المعني بلفظه بناءً علي فهمه و يؤمن مثل ذلك من الفقيه‘‘ [1]
یعنی ’’اور یہ ترجیح صرف اس اعتبار سے ہے کہ فقیہ، راوی کے مفہوم اور حدیث کے معنی کو باتمام ضبط کر سکتا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خبر کو بالمعنی نقل کرنا عام تھا پس جو شخص معروف فقیہ نہ ہو وہ اپنے قصور فہم کی بنا پر کبھی اپنے الفاظ میں (اس روایت کے) معنی کی ادائیگی سے قاصر رہتا ہے جب کہ ایک فقیہ اس چیز سے محفوظ و مأمون ہوتا ہے‘‘۔
مسلم الثبوت میں مذکور ہے:
’’سند میں فقہ الراوی، قوت ضبط اور ورع مطلوب ہے‘‘۔ [2]
جناب ولی اللہ لکھنوی ’’مسلم الثبوت‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ فقاہت سے ترجیح کا حصول اس لئے ضروری ہے کہ فقیہ روایت میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتا ہے، پس اگر وہ کوئی کلام سنتا ہے تو اس کے لئے بظاہر اس کا اجر جائز نہیں ہوتا چنانچہ وہ کلام بیک نظر اس کی روایت میں جاری نہیں ہو جاتا بلکہ وہ اس کے معنی کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور اس کے ورود کے اسباب کو تلاش کرتا ہے۔ جب وہ اس پر مطلع ہو جاتا ہے اور اس کا اشکال رفع ہو جاتا ہے تو وہ اس کو نقل کرتا ہے، برخلاف اس کے ایک غیر فقیہ ان امور تحقیق پر قادر نہیں ہوتا لہٰذا وہ جس قدر سنتا ہے اسے نقل کر دیتا ہے۔ الغرض زیادہ فقاہت والا راوی کم درجہ والے فقیہ پر ترجیح کا متقاضی ہے، پس جو فقہی اعتبار سے اعلیٰ صلاحیت کا مالک ہو اس کی روایت ترجیح پائے گی اس شخص کی روایت پر جو اس مرتبہ کا حامل نہیں ہے‘‘۔ [3]
علامہ بزدوی فرماتے ہیں:
’’و أما رواية من لم يعرف بالفقه ولٰكنه معروف بالعدالة والضبط مثل أبي هريرة و أنس بن مالك فإن وافق القياس عمل به و إن خالفه لم يترك إلا بالضرورة‘‘ [4]
یعنی ’’ایسے راوی کی روایت جو فقاہت کے لئے معروف نہ ہو لیکن عدالت و ضبط کے لئے مشہور ہو مثلاً ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک تو اگر ان کی روایت قیاس کے کے مطابق ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا لیکن اگر قیاس کے خلاف ہو تو اس کو ضرورتاً ترک کر دیا جائے گا‘‘۔
[1] اصول للسرخسی: 1/349
[2] مسلم الثبوت: 2/206، الاجوبۃ الفاضلۃ: ص 211
[3] شرح مسلم الثبوت: 2/206، الاجوبۃ الفاضلۃ: ص 211، قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: ص 298-299
[4] اصول الفقہ للبزدوی: 2/699، الاحکام للآمدی: 2/169