کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 93
مثمرات الفاظ کے اجتنائے احکام کو بخوبی جانتے ہیں پس فقہاء کی احادیث کی جانب استرواح اولیٰ ہے۔ علی بن خشرم نے حکایت کی ہے کہ ہم سے وکیع نے پوچھا کہ دو اسنادوں میں سے تم کو کون سی سند زیادہ محبوب ہے: ’’الأعمش عن ابی وائل عن عبداللہ یا سفیان عن منصور عن ابراھیم عن علقمہ عن عبداللہ؟ ہم جواب دیا: الأعمش عن ابی وائل عن عبداللہ۔ انہوں نے فرمایا: یا سبحان اللہ: اعمش شیخ، ابو وائل شیخ، سفیان فقیہ، منصور فقیہ، ابراہیم فقیہ اور علقمہ بھی فقیہ ہیں۔ مگر فقہاء کے نزدیک متداول حدیث شیوخ کے یہاں متداول حدیث سے بہتر ہے‘‘۔ [1]
علی بن خشرم کی اس حکایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’معرفۃ الحدیث‘‘[2]میں، ابن الاثیر نے ’’جامع الأصول‘‘[3]میں اور جناب محمد عبدالرشید نعمانی صاحب نے ’’تعلیق علی دراسات اللبیب‘‘[4]میں نقل کیا ہے۔ امام ابن اثیر رحمہ اللہ اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’یہ فقہاء کے طریق سے ابن مسعود تک رباعی اور مشائخ کے طریقہ سے ثنائی ہے لیکن وکیع رحمہ اللہ نے رباعی کو رجال کے تفقہ کی بنا پر مقدم ٹھہرایا ہے‘‘۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(ترجیح کی) تیسری وجہ فقہ الراوی ہے، خواہ وہ حدیث بالمعنی مروی ہو یا باللفظ کیونکہ فقیہ اگر کوئی ایسی چیز سنتا ہے جو بظاہر اس کے تحمل میں مانع ہوتی ہے تو بخلاف ایک عامی کے اس پر بحث کرتا ہے حتیٰ کہ اس چیز پر مطلع ہو جاتا ہے جس سے وہ اشکال زائل ہو جاتا ہے‘‘۔ [5]
علامہ سرخسی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بارے میں یزید بن اصم رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد دو متعارض احادیث میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو آں رضی اللہ عنہ کی فقاہت کی بنا پر ترجیح دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’وهذا الترجيح ليس إلا بالاعتبار و تمام الضبط من الفقيه وكان المعني فيه أن نقل الخبر بالمعني كان مشهورا فيهم فمن لا يكون معروفا بالفقه ربما يقصر في
[1] الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ للحازمی: ص 16، الاجوبۃ الفاضلۃ للکنوی: ص 210، قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: ص 297-298
[2] معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص 11
[3] جامع الاصول لابن الاثیر: 1/62
[4] تعلیق علی دراسات اللبیب: ص 207
[5] تدریب الراوی: 1/198، الاجوبۃ الفاضلۃ للکنوی: ص 211، قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: 298