کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 92
دبوسی، ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب بن الحارث البخاری (م 422ھ) موفق المکی، علامہ سرخسی (م 490ھ)، علامہ بزدوی، ملا علی قاری، ابن ھمام، ابن امیر الحاج الحلبی، ملا جیون، بحر العلوم لکھنوی، ولی اللہ لکھنوی، ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی،شبلی نعمانی اور ظفر احمد عثمانی تھانوی وغیرھم تک تمام اکابر و اصاغر حنفیہ نے اس شرط پر اعتماد کیا ہے، چنانچہ امام سخاوی رحمہ اللہ ابو زید الدبوسی سے ناقل ہیں:
’’المجهول من الصحابة خبره حجة إن عمل به السلف أو سكتوا عن رده مع انتشاره بينهم، فإن لم ينتشر فإن وافق القياس عمل وإلا فلا، لأنه في المرتبة دون ما إذا لم يكن فقيها، قال و يحتمل أن يقال: إن خبر المشهور الذي ليس بفقيه حجة ما لم يخالف القياس و خبر المجهول مردود مالم يؤيده القياس ليقع الفرق بين من ظهرت عدالته ومن لم تظهر‘‘ [1]
مگر جملہ ائمہ حدیث اور فقہاء محدثین حتی کہ قدمائے احناف کے نزدیک بھی نقد روایت یا ترجیح میں فقہ راوی کی کوئی اہمیت نہ تھی، چنانچہ شیخ عبدالعزیز بن احمد البخاری رحمہ اللہ (م 481ھ) شارح ’’اصول البزدوی‘‘ فرماتے ہیں:
’’اعلم أن ما ذكرنا من اشتراط فقه الراوي لتقديم خبره علي القياس هو مذهب عيسيٰ بن أبان و اختاره القاضي الإمام أبو زيد و خرج عليه حديث المصراة و خبرا المصراة و خبر العرايا و تابعه أكثر المتاخرين‘‘ [2]
یعنی ’’جان لو کہ فقہ راوی کی جو شرط ہم نے قیاس پر (فقیہ راوی) کی خبر کی تقدیم و ترجیح کے لئے ذکر کی ہے تو یہ عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے جسے قاضی امام ابو زید دبوسی نے اختیار کیا اور اسی پر مصراۃ [3] اور عرایا کی حدیثوں کو تخریج کیا۔ اکثر متاخرین نے اس کی ہی اتباع کی ہے‘‘۔
اب بعض ائمہ اصول اور مشہور علمائے حنفیہ کے نزدیک تنقید و ترجیح حدیث میں ’’فقہ راوی‘‘ کی اہمیت اور اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
علامہ حازمی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’تیئسویں (23) وجہ یہ ہے کہ اگر دو (2) حدیثوں کے رواۃ حفظ و اتقان میں مساوی ہوں: فقہاء
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/101، وراجع لذلک: التقریر والتحبیر: 2/250-252، فصول البدائع: 2/222-225، المسودۃ: ص 239، بیان المختصر: 1/720، تغییر التنقیح: ص 144-145، المغنی فی اصول الفقہ: ص 207-213
[2] کشف الأسرار: 2/703
[3] ’’حدیث مصراۃ‘‘ پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ آگے باب ششم ’’خبر آحاد کی حجیت‘‘ (تقدیم قیاس کی چند مثالیں) کے تحت پیش کی جائے گی