کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 91
حنفی اصول ’’فقاہت راوی‘‘ پر اصلاحی صاحب کا بے جا اعتماد خلاصہ بحث کے اختتام پر جناب اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’—لہٰذا جہاں تک روایت حدیث کا تعلق ہے اس میں تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہر طبقہ اور گروہ یکساں طور پر شامل سمجھا جائے گا البتہ فہم حدیث میں انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کا علم انہی کی روایات کے الفاظ اور انہی کی تنقیدات قابل ترجیح ہوں گی جو تدبر حدیث کے نقطہ نظر سے سب سے ممتاز ہیں، جیسے خلفائے راشدین، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ابو الدرداء، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہم۔ جو لوگ حدیث پر تدبر کریں گے ان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ حدیث کے معاملے میں اہل تدبر کون لوگ ہیں‘‘۔ [1] اس عبارت میں جناب اصلاحی صاحب کا یہ قول کہ ’’البتہ فہم حدیث میں انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کا علم انہی کی روایات کے الفاظ اور انہی کی تنقیدات قابل ترجیح ہوں گی جو تدبر حدیث کے نقطہ نظر سے سب سے ممتاز ہیں‘‘ – دراصل فقہائے حنفیہ کے اس اصول سے مستفاد ہے جسے ’’فقاہت راوی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پھر اس اقتباس میں بیان کئے گئے چند ممتاز صحابہ کے اسمائے گرامی میں حضرت ابو ہریرہ، انس بن مالک اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم، کہ جنہیں علمائے حنفیہ بزعم خود غیر فقیہ، غیر مجتہد اور اعرابی وغیرہ بتاتے ہیں، کے اسماء مبارکہ کو شامل نہ کرنا ہمارے اس گمان کو مزید تقویت پہنچاتا ہے۔ اگر جناب اصلاحی صاحب کے اس اصول ’’تدبر حدیث‘‘ اور فقہائے حنفیہ کے اصول ’’فقہ راوی‘‘ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ دونوں میں کوئی مغایرت نہیں بلکہ عین یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ذیل میں ہم اس حنفی الاصل اصلاحی اصول ’’تدبر حدیث‘‘ کے پس و پیش منظر کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا بطلان واضح کریں گے: تنقید روایات میں فقہائے حنفیہ اور ائمہ اصول کے نزدیک ’’فقہ راوی‘‘ کی شرط کافی مشہور ہے۔ پہلے پہل قاضی عیسیٰ بن ابان (م 221ھ) نے احادیث میں ترجیح کی اس شرط کو بے حد استعمال کیا۔ ان کے بعد ابو زید
[1] مبادئ تدبر حدیث: ص 87