کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 90
روایت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے اور پھر عثمان بن حکیم کو تابعی بیان کیا ہے۔‘‘ [1] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’الاصابة في تمييز الصحابة‘‘ میں اور حافظ قرطبی مالکی رحمہ اللہ نے ’’الاستيعاب في أسماء الأصحاب‘‘ میں حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کو وارد کر کے گویا ان کے صحابئ رسول ہونے کی تائید فرمائی ہے، بلکہ ’’فتح الباری‘‘ میں تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ: ’’ان کا قول: ’’ان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم استغفرله‘‘ تو عاصم کی رائے کہ جس نے (آپ کو محض دیکھا نہ ہو بلکہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف صحبت اٹھائی ہو، کے مطابق بھی عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کی صحابیت پر دلالت کرتا ہے‘‘۔ [2] پس معلوم ہوا کہ جناب اصلاحی صاحب کا عاصم الأحول کے قول کو حقیقت ’’پسندانہ‘‘ کہنا دراصل حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق جناب اصلاحی صاحب کا حضرت شعبہ رحمہ اللہ کے اس قول کو نقل کرنا کہ ’’وإن شئت قلت له صحبة‘‘ تو اس سے ہمارے موقف کی ہی تائید ہوتی ہے۔ اگرچہ حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کی صحبت قدیم نہ تھی مگر ان کا ترجمہ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’الإصابة‘‘[3]میں اور امام قرطبی المالکی رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب‘‘[4]میں وارد کر کے گویا ان کے صحابئ رسول ہونے کی توثیق فرمائی ہے۔ خود جناب اصلاحی صاحب نے بھی شعبہ رحمہ اللہ کے قول کا اردو ترجمہ کرتے وقت حضرت جندب بن سفیان کے نام پر‘‘ کی دعائیہ علامت تحریر فرمائی ہے جو کہ عام طور پر صحابہ کرام کے لئے ہی مستعمل ہے، گویا آں محترم بھی در پردہ حضرت جندب رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کے معترف ہیں۔ عاصم الاحول رحمہ اللہ اور شعبہ رحمہ اللہ کے زیر بحث اقوال کی مراد و منشا کی تفصیل باب رواں کے حصہ اول میں ’’صحابی کی اصطلاحی تعریف‘‘ (دوسرا قول) کے تحت بیان کی جا چکی ہے، چنانچہ یہاں اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مذکورہ بالا دونوں صحابیوں کے متعلق مزید تفصیلات کے لئے ’’أسد الغابة في أسماء الصحابة‘‘ لابن الأثیر، ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ لابن سعد اور ’’التجرید‘‘ للحافظ الذہبی وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
[1] الاصابۃ لابن حجر: 2/308 [2] فتح الباری لابن حجر: 7/4 [3] الاصابۃ: 1/250 [4] الاستیعاب للقرطبی: 1/218