کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 9
کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 مصنف: غازی عزیر پبلیشر: مکتبہ قدوسیہ ترجمہ: باب سوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شرف صحابیت اس باب کا آغاز ہم جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے ان زریں الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کے منتقل ہونے کا اولین ذریعہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں، اس وجہ سے امت میں ان کو اولیت و عظمت کا جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ امت کے گل سرسبد وہی ہیں۔ یہ مقام وہ مقام ہے کہ جس کے بعد امت میں کسی اور کو وہ درجہ حاصل نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ ساری دنیا کو دین انہی صحابہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے ملا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے ان کو بڑا درجہ دیا ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو بڑا درجہ دیا ہے اور ہمارے محدثین نے بھی ان کو جو درجہ دیا ہے خواہ ماثور اور منقول نہ ہو لیکن کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس سے اختلاف کیا جائے۔‘‘ [1] ان سطور میں جناب اصلاحی صاحب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے اس سے کوئی ذی عقل انکار نہیں کر سکتا، البتہ ان کی فضیلت کے جس اکلوتے سبب کو آں محترم نے بالجزم بیان کیا ہے اس کے بارے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو محض اپنی آنے والی نسلوں تک احکام دین منتقل کرنے کی بناء پر ہی یہ مقام عطا کیا ہے؟ نیز یہ کہ محدثین نے ان کو جو مقام دیا ہے، آیا وہ ماثور و منقول ہے یا نہیں؟ ان سوالات کے تسلی بخش جوابات قارئین کرام کو ان شاء اللہ آگے آنے والی بحثوں میں ازخود مل جائیں گے، لیکن پہلے ہم ذیل میں ’’صحابی‘‘ اور ’’شرف صحابیت‘‘ سے متعلق چند ضروری امور کا مختصر تعارف پیش کریں گے: ’’صحابی‘‘ کی لغوی تعریف شیخ عبدالوہاب عبداللطیف اور ڈاکٹر محمود الطحان فرماتے ہیں: ’’الصحابة‘‘ لغة مصدر بمعني ’’الصحبة‘‘ و منه ’’الصحابي‘‘ و ’’الصاحب‘‘ و يجمع علي ’’أصحاب‘‘ و ’’صحب‘‘ و كثر استعمال ’’الصحابة‘‘ بمعني الجمع۔ [2] یعنی ’’لغوی اعتبار سے ’’صحابہ‘‘ مصدر ہے جس کے معنی ’’صحبت‘‘ کے ہیں۔ اسی سے لفظ ’’صحابی‘‘ اور ’’صاحب‘‘ ماخوذ ہے۔ اس کی جمع ’’اصحاب‘‘ اور ’’صحب‘‘ آتی ہے۔ ’’صحابہ‘‘ کا بکثرت استعمال بمعنی جمع (اصحاب) ہوتا ہے۔
[1] مبادئ تدبر حدیث: ص 76 [2] حاشیہ بر تدریب الراوی: 2/206، تیسیر مصطلح الحدیث: ص 198