کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 89
3- ’’خير هذه الأمة القرن الذين بعثت فيهم‘‘ [1]
4- ’’خَيْرُ أمتي قَرْنِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘ [2]
واضح رہے کہ یہ تمام احادیث ’’حسن‘‘ اور ’’صحیح‘‘ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا ثبوت
جناب اصلاحی صاحب نے حضرت عبداللہ بن سرجس المزنی رضی اللہ عنہ حلیف بنی مخزوم کے متعلق عاصم الأحول رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے ان کی صحابیت کا انکار کیا ہے، حالانکہ یہ انکار درست نہیں ہے۔ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کو صحابہ میں ذکر کرنے کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اصحاب تاریخ و سیر کہتے ہیں کہ محدثین کے مذہب کے مطابق ان کو لقاء، رؤیت اور سماع کے باعث شرف صحابیت حاصل ہے۔ عاصم الأحول کے قول میں صحبت سے مراد وہ معروف اور خاص شرف صحابیت ہے جس کی طرف بعض تھوڑے سے علماء گئے ہیں‘‘۔ [3]
حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جہاں تک شیخ تاج الدین التبریزی کی اس تمثیل کا تعلق ہے کہ جسے انہوں نے حافظ ابن الصلاح کی کتاب کے اختصار میں یوں بیان کیا ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفر کی حالت میں دیکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام قبول کر لے، مثلاً عبداللہ بن سرجس اور شریح، تو یہ تمثیل صحیح نہیں ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن سرجس کی حدیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے بیان کیا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، ان کے ساتھ روٹی و گوشت کھایا، خاتم نبوت دیکھی اور اپنے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کی درخواست کی‘‘۔ [4]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام بخاری اور امام ابن حبان کا قول ہے کہ انہوں نے صحبت نبوی پائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان احادیث مسلم وغیرہ میں مروی ہیں۔ آپ نے حضرات عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کی ہے۔ ان سے روایت کرنے والوں میں قتادہ، عثمان بن حکیم، مسلم بن ابی مریم اور خود عاصم الأحول وغیرہ ہیں۔ امام بخاری اور امام ابن حبان رحمہما اللہ نے انہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والوں میں اور عثمان بن حکیم کو ان سے
[1] مسند احمد کما فی فتح الباری: 7/6
[2] صحیح البخاری مع فتح الباری: 7/3، صحیح مسلم، الکفایۃ فی علم الروایۃ: 47، فتح المغیث للسخاوی: 4/96، الاصابۃ لابن حجر: 1/21
[3] کما فی التقیید والایضاح: ص 253 والاستیعاب: 2/376
[4] التقید والایضاح للعراقی: 254