کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 88
رکھتا ہو۔ اس کلیہ میں ’’كلهم‘‘ کی صراحت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس ضابطہ کا اطلاق صحابہ کے چھوٹے بڑے تمام طبقات پر یکساں ہو۔ جناب اصلاحی صاحب نے جن اوصاف کو صحت صحابیت کے لئے لازمی قرار دیا ہے وہ دراصل قرآن کریم میں مذکور اعلیٰ طبقہ کے جاں نثار اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فقید المثال فضائل سے مستفاد ہیں مگر ان کو کسی بھی طرح صحابیت کے لئے شرط یا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان اوصاف سے تو محض ان صحابہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ لہٰذا اس ذیلی سرخی کا عنوان ’’صحابیت از روئے قرآن‘‘ کی بجائے ’’فضائل صحابہ از روئے قرآن‘‘ زیادہ موزوں تھا۔ قرآن کریم میں مذکور صحابہ کرام کے ان اوصاف پر غور کرنے سے زیادہ سے زیادہ جو بات علم میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اپنی اپنی خدمات اور اسلام کی راہ میں دی گئی قربانیوں اور ایثار کے مطابق مختلف طبقات میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں جس کی کہ تفصیل باب رواں کے حصہ اول میں گزر چکی ہے۔
جہاں تک ’’خلاصہ بحث‘‘ کے تحت آں محترم کی منقولہ عبارت کا تعلق ہے تو جاننا چاہیے کہ جناب اصلاحی صاحب کو خود یہ اعتراف ہے کہ ’’انہی خدمات کی کمی بیشی کے اعتبار سے ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کے طبقات و مدارج معین ہوئے‘‘ ہیں پس جب ان کی ’’تمام تر خدمات، سرفروشیوں اور جاں نثاریوں سے‘‘ کہ جو انہوں نے اللہ کے رسول کی نصرت اور اس کے دین کی ترویج کے لئے دکھائیں‘‘ کے ’’اعتبار سے ہی ان کے طبقات و مدارج معین ہوئے‘‘ ہیں تو جن لوگوں کو اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے خدمات، سرفروشیاں اور جاں نثاریاں دوسروں کے مقابلہ میں نسبتاً کم تھیں لازمی طور پر وہ ان سے پست درجہ یا ان کے بعد کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے، لیکن بہرحال، صحابی ہی قرار پائیں گے، اور بحیثیت صحابی ان کو بھی محل عدل و صدق تسلیم کیا جائے گا جیسا کہ اوپر بدلائل واضح کیا جا چکا ہے کہ صحابی خواہ درجہ میں چھوٹا ہو یا بڑا سب کی عدالت پر امت کا اجماع ہے۔ لہٰذا بیک جنبش قلم ایسے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف صحابیت کے انکار نہ صرف ان کے اوپر صریح ظلم بلکہ منصفانہ تحقیق کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔
بظاہر جناب اصلاحی صاحب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محض زیارت کے شرف کو باعتبار صحابیت کوئی اہمیت نہیں دیتے، لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا آں محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی کوئی معقول توجیہ پیش کر سکتے ہیں؟
1- ’’لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي‘‘ [1]
2- ’’لَا تَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَادَامَ فِيكُمْ مَنْ رَآنِي وَصَاحَبَنِي وَاللّٰهِ لَا تَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَا دَامَ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي وَ صَاحَبَنِي‘‘ [2]
[1] جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی: 4/358
[2] مصنف ابن ابی شیبہ کما فی فتح الباری: 7/5