کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 86
پس یہ بات قطعی طور پر بے پا چکی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے بحیثیت مسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو، خواہ اسے یہ سعادت ایک دو بار ہی حاصل ہوئی ہو، یا کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل لیا ہو یا چند قدم آپ کے ساتھ چل لیا ہو یا آپ سے کوئی بات سن لی ہو اور اسلام کی حالت ہی پر مرا ہو تو اس کا شمار صحابی رسول ہی میں ہو گا، لہٰذا اس بات کا کوئی قضیہ ہی باقی نہیں رہ جاتا کہ اس پر محدثین کے کلیہ ’’الصحابة كلهم عدول‘‘ کا اطلاق ہو گا یا نہیں، کیونکہ جب وہ ’صحابی‘ ہوا تو اس کے لئے عدالت ثابت ہوئی۔ جناب اصلاحی صاحب نے عدالت صحابہ کے اس اصول کو فقط ان اصحاب رسول تک مقید و محدود کرنے میں بلاشبہ خطا کی ہے جنہوں نے زیادہ طویل مدت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو یا جن کی ملاقات مسلسل رہی ہو یا جن کی اسلام کی راہ میں بے مثال خدمات اور قربانیاں ہوں مثلاً اللہ کے دین اور اس کے رسول کی نصرت کے لئے انہوں نے اپنے اموال خرچ کئے ہوں، ہجرت کی ہو، غزوات میں سرفروشیاں کی ہوں، عسر و یسر میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے ہوں، یا اسلام کی راہ میں سبقت کی ہو وغیرہ – یہ فکر اصلاً علامہ مازری رحمہ اللہ کے قول سے ماخوذ معلوم ہوتی ہے جسے آں موصوف نے ’’شرح البرھان‘‘ میں یوں درج فرمایا ہے:
’’لسنا نعني بقولنا: الصحابة عدول، كل من رآه صلي اللّٰه عليه وسلم يوما ما أوزاره أو اجتمع به لغرض و انصرف عن قريب و إنما نعني به الذين لازموه و عزروه و نصروه واتبعوا النور الذي أنزل معه‘‘ [1]
یعنی ’’جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صحابہ عدول ہیں تو ہمارے اس قول سے مراد وہ تمام لوگ نہیں ہوتے جنہوں نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ایک دن دیکھ لیا، یا آپ کی زیارت کر لی یا کسی غرض سے آپ سے ملا لیا یا آپ کے قریب سے لوٹ گیا، بلکہ اس سے ہماری مراد وہ اشخاص ہوتے ہیں جنہوں نے آپ کی باقاعدہ خدمت کی ہو، آپ کی نصرت و حمایت کی ہو اور آپ پر جو نور ہدایت نازل ہوا تھا اس کی اتباع کی ہو‘‘ لیکن مازری کے اس قول پر تعاقب کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ سخاوی وغیرہما فرماتے ہیں:
’’اس بارے میں کسی نے مازری کی موافقت نہیں کی ہے بلکہ بیشتر لوگوں نے اس قول پر اعتراض کیا ہے شیخ صلاح الدین علائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ قول غریب ہے۔ اس سے روایت و صحبت کے لئے مشہور بہت سے افراد عدالت کے حکم سے خارج ہو جاتے ہیں مثلاً: وائل بن حجر، مالک بن الحویرث، عثمان بن ابی العاص وغیرہم کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بصورت وافدین حاضر ہوئے لیکن آں صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت کم وقت ٹھہرے اور اپنے اپنے قبیلوں میں لوٹ گئے۔ اسی طرح وہ صحابہ بھی عدالت کے حکم سے خارج ہو جاتے ہیں جو صرف ایک ہی حدیث کی
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/98، تدریب الراوی: 2/214-216، قواعد التحدیث للقاسمی: 200، الإصابۃ لابن حجر: 1/19