کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 85
حدیث‘‘ کے بعض مقامات پر تحریر فرماتے ہیں: ’’حدیث کے سب سے بڑے رازداں اور سب سے بڑے خادم حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہیں‘‘۔ [1] اور ’’حدیث کے صاحب البیت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ‘‘۔ [2] دل یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ اس بارے میں جناب اصلاحی صاحب کی نظر سے امام رحمہ اللہ کا قول نہ گزرا ہو گا لیکن یہاں ’’حدیث کے سب سے بڑے رازداں اور سب سے بڑے خادم‘‘ بلکہ ’’حدیث کے صاحب البیت‘‘ کے قول کو صرف اس لئے بے وقعت سمجھا گیا ہے کہ وہ آں موصوف کے اپنے نظریات سے متصادم ہے۔ اسے بے اصول نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ جب کسی امام کا کوئی قول اپنے موقف کے موافق مل جائے تو اس کی شان میں صدائے تحسین بلند کرتے زبان قلم نہ تھکے لیکن اگر کسی دوسرے موقع پر اسی امام کا قول اپنی سوچی سمجھی رائے کے خلاف ملے تو تجاہل عارفانہ کے طور پر بالکل چپ سادھ لی جائے۔ جناب اصلاحی صاحب کی اس رائے کے بطلان پر ایک اور دلیل خود ان کی کتاب کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں: آں محترم نے ’’صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعدیل حدیث میں‘‘ کے زیر عنوان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک حدیث استدلالاً نقل کی ہے، گویا وہ آں محترم کے نزدیک درجہ صحت کو پہنچی ہوئی ہے (حالانکہ اس کا مقام و مرتبہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے)، میں کہتا ہوں کہ اگر اصلاحی صاحب اپنی نقل کردہ اس حدیث کے ان الفاظ پر ہی غور فرما لیتے کہ: ’’فإن لم يكن سنة مني ماضية فما قال أصحابي‘‘ (اگر میری کوئی ماثور سنت نہ ہو تو جو میرے اصحاب نے کہا اس پر چلو)‘‘۔ [3]تو اس کے معنی ہی آں موصوف کو مجبور کر دیتے کہ اس بارے میں جس صحابی کا قول بھی انہیں ملے بسر و چشم اسے قبول کر لیں۔ لیکن اس حدیث کو قابل حجت ماننے کے باوجود اگلے ہی صفحہ پر مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب (اگرچہ اس قول کی نسبت بھی آں رضی اللہ عنہ کی طرف درست نہیں ہے) کو نقل کرتے ہیں مگر اسے لائق ترجیح نہیں سمجھتے بلکہ اپنی رائے کے مقابلہ میں ایک صحابی رسول کی رائے کو ہی نہیں بلکہ اگر وہ حدیث درست ہوتی تو فرمان رسول کو بھی بے وقعت سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، فإنا للّٰه و إنا إليه راجعون
[1] مبادئ تدبر حدیث: ص 39 [2] نفس مصدر 68 [3] نفس مصدر ص 77-78