کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 84
کچھ دیر کے لئے مل لیا ہو یا چند قدم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل لیا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات سن لی ہو وہ صحابئ رسول کہلانے کا مستحق نہیں ہے، چنانچہ ایسے افراد پر جرح و تعدیل کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے، گویا مجرد آں صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت (رؤیت و ملاقات) کو صحابیت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
2- محدثین کے اس کلیہ کہ الصحابة كلهم عدول، کا اطلاق صرف ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ مدت تک صحبت اٹھائی ہو، جن کی ملاقات مسلسل رہی ہو، اسلام کی راہ میں ان کی بے مثال خدمت اور قربانیاں ہوں مثلاً اللہ کے دین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت کے لئے انہوں نے اموال خرچ کئے ہوں، اپنے آبائی وطن اور گھر کو خیر باد کہا ہو، غزوات میں سرفروشیاں کی ہوں، اسلام کی راہ میں سبقت کی ہو اور عسر و یسر میں آں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہوں بلکہ صرف ایسے افراد ہی ’صحابی‘ کی تعریف میں داخل ہیں اور بجا طور پر جرح و تعدیل سے بالاتر ہیں۔
3- قرآن کریم نے منافقین کی اصل خرابی ہی یہ بتائی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہیں اٹھائی تھی حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے ساتھ اسلام کے مدعی بھی تھے۔
جناب اصلاحی صاحب نے شرف صحابیت اور صحابہ کی عدالت کے بارے میں اوپر جو خامہ فرسائی فرمائی ہے وہ دراصل مختلف النوع مغالطات کا مکسچر ہے۔ ذیل میں ہم آں محترم کی ان مغالطات کی نشاندہی کریں گے:
اس سلسلہ میں پہلی بنیادی غلطی تو یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب اس شخص کو صحابی نہیں مانتے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت مسلمان دیکھا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ دیر بیٹھا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دور چل لیا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سن لی ہو اور اسلام پر ہی اس کی وفات ہوئی ہو۔ ایسے شخص کو شرف صحابیت سے محروم کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ جناب اصلاحی صاحب کا ایسے شخص کی صحابیت سے انکار کرنا جمہور محدثین، بیشتر اصولیین، جملہ اصحاب لغت اور تمام صلحائے امت کے متفقہ و مسلمہ موقف بلکہ سبیل المؤمنین سے کھلی بغاوت ہے۔ ایسی صورت میں آں محترم کی رائے کو ’’شاذ‘‘ سمجھ کر ترک کرنے کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہاں نہایت خلوص کے ساتھ جناب اصلاحی صاحب کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے جو کہ اوپر ’’صحابی کی اصطلاحی تعریف‘‘ (پہلا قول) کے تحت بیان کیا جا چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قارئین کرام کو ہماری یہ نصیحت کچھ عجیب اور بے محل سی محسوس ہو کیونکہ جب آں موصوف اس سلسلہ میں سرے سے محدثین کی رائے کو مانتے ہی نہیں تو پھر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، کہ جو خود بھی ایک بلند پایہ محدث گزرے ہیں، کے قول کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دینا چہ معنی دارد؟ -- لیکن جاننا چاہیے کہ جناب اصلاحی صاحب کے نزدیک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی وہ حیثیت نہیں ہے جو دوسرے ائمہ حدیث کی ہے، لہٰذا ’’مبادئ تدبر