کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 83
میں ان کی جو تعظیم و تشریف بیان ہوئی ہے اس میں کوئی دوسرا گروہ ان کا شریک و سہیم نہیں۔ لیکن قرآن نے اس کا سبب یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زیارت کی ہے، بلکہ یہ بتایا ہے کہ انہوں نے اسلام کی راہ میں سبقت کی ہے، اس کی خاطر ہجرت اور جہاد کی بازیاں کھیلی ہیں، اللہ کے دین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا ہے اور انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں میں حصہ دار بنایا ہے۔
اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدھ بار دیکھنے والوں کے متعلق حقیقت پسندانہ بیان ہمارے نزدیک وہ ہے جو عاصم احول رحمہ اللہ سے منقول ہے: ’’انه قال: قد راٰي عبداللّٰه بن سرجس رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم غير أنه لم يكن له صحبة‘‘ انہوں نے کہا: عبداللہ بن سرجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، لیکن ان کو صحبت نہیں حاصل ہوئی۔ ان کے نزدیک، گویا مجرد دیکھنے کو صحبت میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے بارے میں ہم محتاط رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وہ مسلک اختیار کر سکتے ہیں جو شعبہ رحمہ اللہ سے منقول ہے: ’’قال: كان جندب بن سفيان أتي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و إن شئت قلت له صحبة‘‘ حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور کوئی چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ ان کو کچھ صحبت بھی حاصل ہوئی۔ اس بات کو بعض لوگوں نے یوں بھی کہا ہے کہ كان له رؤية ان کو ایک بار زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
خلاصہ بحث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف اپنی جگہ بہت بڑا شرف اور ایک مسلمان کی سب سے بڑی سعادت ہے، لیکن قرآن مجید نے محض اس زیارت کو اہمیت نہیں دی۔ قرآن مجید کی رو سے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو جو عظمت و مرتبہ حاصل ہے اس کا تعلق تمام تر ان خدمات، سرفروشیوں اور جاں نثاریوں سے ہے جو انہوں نے اللہ کے رسول کی نصرت اور اس کے دین کی ترویج کے لئے دکھائیں۔ انہی خدمات کی کمی بیشی کے اعتبار سے ان کے طبقات و مدارج معین ہوئے۔ اگر مجرد رسول اللہ کو دیکھنا کوئی شرف ہوتا تو اس اعتبار سے مخلفین احزاب و تبوک، منافقین مدینہ و اہل بدر اور بانیان مسجد ضرار کچھ کم اس شرف کے حق دار نہ تھے۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں بلکہ آپ کے ہمراہ بعض غزوات میں بھی شریک رہے، الٹے سیدھے انفاق بھی کرتے رہے۔ لیکن قرآن نے جس طریقہ سے ان کو لتاڑا ہے اسے سورہ منافقون، سورہ توبہ اور سورہ انفال میں پڑھ لیجئے، الخ۔‘‘ (257) [1]
جناب اصلاحی صاحب کی اس تمام طویل تر بحث کا نچوڑ چند جملوں میں یہ ہے کہ:
1- جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خاص صحبت نہ اٹھائی ہو، محض ایک دو بار دیکھا ہو یا کبھی کبھار
[1] مبادئ تدبر حدیث ص 82-87