کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 82
اس سلسلے کی سب سے اہم آیت سورہ بقرہ کی وہ آیت ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔ اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا اصلی وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کا حامل اور اس کا داعی و مبلغ ہونا بیان ہوا جو طول صحبت و رفاقت اور کمال اخلاص و فدویت کو مستلزم ہے۔ اس سلسلے کی دوسری آیت وہ ہے جس کا تعلق ان سرفروشوں سے ہے جنہوں نے گھر سے سینکڑوں میل دور عین دشمن کے شہر کی دیواروں کے نیچے نہتے ہونے کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جہاد پر سر کٹانے کے لئے بیعت کی: [لَّقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا] (الفتح- 48: 18) اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب کہ وہ تم سے بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے تو اللہ نے ان کے دلوں کا حال جان لیا تو ان پر طمانیت اتاری اور ان کو ایک عنقریب ظاہر ہونے والی فتح سے نوازا۔ یہ مضمون سورہ توبہ میں بھی بیان ہوا ہے: [وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ] (التوبۃ – 9: 100) اور مہاجرین و انصار میں سے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں اور پھر جن لوگوں نے خوبی کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ اوصاف زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہ حشر میں یوں بیان ہوئے ہیں: [لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ [٨] وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ] (الحشر – 59: 8-9) یہ خاص طور پر ان محتاج مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی املاک سے نکالے گئے ہیں، اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہوئے یہی لوگ اصل راست باز ہیں۔ اور جو لوگ پہلے سے ٹھکانے بنائے ہوئے اور ایمان استوار کئے ہوئے ہیں وہ دوسرت رکھتے ہیں ان لوگوں کو جو ہجرت کر کے ان کی طرف آ رہے ہیں اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں محسوس کر رہے ہیں اور وہ ان کو اپنے اوپر ترجیح دے رہے ہیں، اگرچہ انہیں خود احتیاج ہو۔ ان آیات پر تدبر کیجئے تو معلوم ہو گا کہ ان میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی صرف تعدیل ہی نہیں، بلکہ دنیا و آخرت دونوں