کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 81
صاحب کو اپنے کسی مخصوص شاذ نظریہ کی حمایت و تائید مطلوب ہوتی ہے تو ’’الکفایۃ‘‘ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور ان کو وہ چیز جو دوسری کتب مصطلحات میں شاید بہ آسانی نہ مل سکتی ہو اس میں مل جاتی ہے۔ اسی لیے ’’الکفایۃ‘‘ آں محترم کا اکلوتا اور محبوب ترین ماخذ ہے [1] باوجود اس کے جب صاحب ’’الکفایۃ‘‘ کی کوئی رائے محترم اصلاحی صاحب کو اپنی مرضی و منشا کے خلاف نظر آتی ہے تو اس سے یوں لاعلم اور دست کش ہو جاتے ہیں گویا کہ اس کا سرے سے ’’الکفایۃ‘‘ میں وجود ہی نہیں ہے۔ یہاں مذکورہ سبب بغاوت بھی یہی کچھ معلوم ہوتا ہے، واللہ أعلم۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب ایک اور ذیلی سرخی کے تحت فرماتے ہیں: صحابیت از روئے قرآن: قرآن مجید میں صحابہ کی تعریف میں جو آیتیں وارد ہیں اور جن کا محدثین صحابہ کی تعدیل کے سلسلہ میں حوالہ دیتے ہیں ان سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن کے پیش نظر وہی لوگ ہیں جنہوں نے دین کے اختیار کرنے میں پیش قدمی کی ہے، عسر اور یسر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ اپنا مال کیا ہے، غزوات میں سرفروشیاں کی ہیں۔ وہ لوگ پیش نظر نہیں ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کبھار دیکھ لیا ہے۔ اعراب کے منافقین کی تو قرآن نے اصل خرابی ہی یہی بتائی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہیں اٹھائی، اگرچہ انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی اور اسلام کے بھی بڑی بلند آہنگی سے مدعی تھے۔ اس باب میں قرآن مجید کی آیات کا استقصاء کیجئے اور ان پر ایک نظر اس پہلو سے ڈالئے کہ ان میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے شرف کے پہلو کو کوئی اہمیت دی گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت و رفاقت، نصرت و حمایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ و تلقی کو اصل اہمیت حاصل ہے۔
[1] چنانچہ آں موصوف باب اول: ’’حدیث اور سنت میں فرق‘‘ میں ایک مقام پر حاشیہ کے تحت ’’الکفایۃ‘‘ کے متعلق رقمطراز ہیں: ’’میں نے حوالے کے لئے اس کتاب کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ یہ امہات فن میں شامل ہے جہاں تک مطالعہ کا تعلق ہے، میں نے دوسری ضروری کتابیں بھی پڑھ لی ہیں، لیکن میرے نزدیک اصول حدیث میں سب سے اہم کتاب یہی ہے، جہاں تک مجھے علم ہے، دوسرے اصحاب فن بھی اس کے متعلق یہی رائے رکھتے ہیں۔‘‘ (مبادئ تدبر حدیث ص 20) – بلاشبہ کثرت اطلاع کے اعتبار سے ’’الکفایۃ‘‘ کو اصول حدیث کی چند اہم اور بنیادی کتب میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کو ماخذ کے طور پر منتخب کرنے کی اصل وجہ جو راقم کی سمجھ میں آتی ہے وہ اوپر مذکور ہو چکی ہے۔ جہاں تک اس فن کے متعلق دوسری ضروری کتابوں کے مطالعہ کا تعلق ہے تو معاف فرمائیں راقم کو جناب اصلاحی صاحب کے اس دعویٰ کو قبول کرنے میں بھی قدرے تأمل ہے۔ اگر آں محترم نے واقعتاً اس فن کے متعلق کچھ دوسری ضروری کتابیں، کہ جن کے اسماء آگے باب ہشتم کے تحت بیان کئے جائیں گے، بھی پڑھی اور سمجھی ہوتیں (یا کسی صاحب فن کی صحبت میں کچھ عرصہ رہ کر ہمہ دانی کے زعم کے ساتھ نہیں بلکہ ایک طالب علم کی حیثیت سے علوم حدیث کا باقاعدہ درس لیا ہوتا) تو آں محترم پر وہ فحش اغلاط ہرگز مخفی نہ رہتیں کہ جن کی کچھ نشاندہی گزشتہ صفحات میں کی جا چکی ہے یا آئندہ صفحات میں کی جائے گی، إن شاء اللہ العزیز۔