کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 80
يستدل علي ترجيح مذهب المحدثين فإن هذا الإمام قد نقل عن أهل اللغة أن الأسم يتناول صحبة ساعة و أكثر و أهل الحديث قد نقلوا الاستعمال في الشرع والعرف علي وفق اللغة فوجب المصير إليه‘‘ [1] قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کے کلام کے آخری حصہ میں بعض ائمہ اصول کی جو رائے مذکور ہے اور بقول جناب اصلاحی صاحب ان محقق کی تحقیق کا جو ’’مضبوط‘‘ تر حصہ ہے اس پر تفصیلی بحث باب رواں کے حصہ اول میں ’’صحابی کی اصطلاحی تعریف‘‘ (دوسرا قول) کے تحت گزر چکی ہے، لہٰذا یہاں اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ اس فکر کے قائل جن اصحاب کو جناب اصلاحی صاحب نے ’’امت کے اکابر اہل الرائے‘‘ قرار دیا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ معدودے علمائے اصول ہیں۔ جمہور محدثین، اصحاب لغت اور بیشتر اصولیین کے مقابلہ میں ان چند لوگوں کو محض اس لئے ’’امت کے اکابر اہل الرائے‘‘ قرار دینا کہ ان کی رائے آنجناب کی رائے کے موافق ہے ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ – جن کے متعلق جناب اصلاحی صاحب خود فرماتے ہیں: ’’ہمارے سلف میں اصول حدیث پر خطیب بغدادی علیہ الرحمۃ کو سند کی حیثیت حاصل ہے‘‘[2]۔ شرف صحابیت کے لئے ’’کثرت صحبت‘‘ اور ’’استمرار اللقاء‘‘ کی شرائط کو ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسی متفقہ رائے کے قائل تھے جو کہ عام محدثین، اصحاب لغت اور جمہور علمائے اصول کی ہے، چنانچہ حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’والظاهر أن هذا الكلام بقية كلام القاضي أبي بكر فإنه يشترط في الصحابي كثرة الصحبة و استمرار اللقاء كما تقدم نقله عنه و أما الخطيب فلا يشترط ذلك علي رأي المحدثين و علي كل تقدير فلا بد من تقييد ما أطلقه بأن يكون ادعاءه لذلك‘‘ [3] میں پوچھتا ہوں کہ یہاں اصول حدیث پر اپنی ہی تسلیم شدہ اس اتھارٹی (سند) کی رائے سے بغاوت کیوں کی گئی ہے؟ شاید قارئین کرام کو اس سوال کا جواب حلقہ فراہی و اصلاحی کی جانب سے کبھی نہ مل سکے، لہٰذا ان کی اطلاع کے لئے عرض کئے دیتا ہوں کہ ’’الکفایۃ‘‘ میں ہر طرح کا مواد وافر مقدار میں موجود ہے۔ چونکہ علامہ رحمہ اللہ نے اس میں ہر طرح کی آراء کو بقید سند لیکن بلا تنقیح جمع کرنے کا اہتمام فرمایا ہے لہٰذا جب اصلاحی
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/78 [2] مبادئ تدبر حدیث: 57 [3] التقیید والایضاح للعراقی: ص 258