کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 79
حالانکہ اگر کھلی آنکھ اور کھلے ذہن کے ساتھ دیکھا جائے تو جس چیز کو جناب اصلاحی صاحب نے ’’محقق کی بات کا پہلا حصہ‘‘ قرار دیا ہے وہ سرے سے محقق قاضی ابوبکر الباقلانی کی اپنی بات ہی نہیں بلکہ ’’اہل لغت کا اجماع‘‘ ہے، جیسے آں رحمہ اللہ نے پوری صراحت کے ساتھ نقل کر دیا ہے۔ پھر اس اجماع میں یہ بات ہرگز منقول نہیں ہے ’’صحبة‘‘ اس کو کہتے ہیں کہ ’’اچانک آپ کی نظر کسی پر پڑ گئی یا چند قدم اس کے ساتھ ہو لئے‘‘ – ہم قارئین کرام سے درخواست کریں گے کہ قاضی الباقلانی کا پورا کلام، جو ’’صحابی کی لغوی تعریف‘‘ کے زیر عنوان رواں باب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے، ایک بار پھر ملاحظہ فرما لیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا اس کلام کے کسی جملہ سے وہ معنی مستفاد ہوتے ہیں جو جناب اصلاحی صاحب نے بیان کئے ہیں؟ ان شاء اللہ جواب نفی میں ہی ہو گا۔
جہاں تک قاضی باقلانی کے نقل کردہ اجماع والے حصہ کے ’’کمزور‘‘ ہونے کا تعلق ہے تو ہم انتہائی ادب کے ساتھ جناب اصلاحی صاحب سے یہ دریافت کرنا چاہیں گے کہ کیا آپ کو اپنی عربی دانی پر اس قدر گمان ہو چلا ہے کہ اہل زبان ہی نہیں بلکہ ائمہ لغت کے اجماع کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے؟ بہرحال ہمیں یہاں جناب اصلاحی صاحب کے زعم لغت دانی یا اس منقولہ اجماع پر بحث کرنا مطلوب نہیں، لہٰذا اپنی گفتگو کو دوبارہ اصل موضوع بحث پر ہی مرکوز کرتے ہیں۔
قاضی ابوبکر الباقلانی کے قول کی تائید میں امام سخاوی رحمہ اللہ، خطیب بغدادی رحمہ اللہ سے ناقل ہیں:
’’وكذا قال صاحبه الخطيب أيضا: لا خلاف بين أهل اللغة أن الصحبة التي اشتق منها الصحابي لا تحد بزمن بل يقول صحبته سنة و صحبته ساعة‘‘ [1]
یعنی ’’قاضی ابوبکر الباقلانی کے مصاحبین میں سے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اس بارے میں اہل لغت کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صحبت کہ جس سے صحابی مشتق ہوا ہے، کے لئے زمانہ کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ کہا جاتا ہے: سال بھر کی صحبت یا گھنٹہ بھر کی صحبت‘‘۔
آگے چل کر آں رحمہ اللہ امام نووی رحمہ اللہ سے مقدمہ شرح مسلم کے حوالہ سے قاضی (ابوبکر کے کلام کے متعلق نقل) فرماتے ہیں کہ اس سے قاضی ابوبکر اصلاً محدثین کے مذہب کی ترجیح پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ آں رحمہ اللہ نے اہل لغت سے اجماعاً نقل کیا ہے کہ اسم صحابی کا اطلاق گھنٹہ بھر یا اس سے زیادہ مدت کی صحبت سب پر یکساں ہوتا ہے اور یہی محدثین کا معروف مذہب بھی ہے، چنانچہ محدثین کے عرف اور لغت میں موافقت واضح ہوئی۔ اس موقع پر علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’ولذا قال النووي في مقدمة شرح مسلم عقب كلام القاضي ابي بكر: وبه
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/78