کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 78
ہے، حسب ذیل ہے:
’’كما أن القول مكلم و مخاطب و ضارب مشتق من المكالمة والمخاطبة والضرب و جار علي كل من وقع منه ذلك قليلا كان أو كثيرا و كذلك جميع الأسماء المشتقة من الأفعال و كذلك يقال صحبت فلانا حولا ودهرا و سنة و شهرا و يوما و ساعة فيوقع اسم المصاحبة بقليل ما يقع منها و كثيره و ذلك يوجب في حكم اللغة إجراء هذا علي من صحب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ولو ساعة من نهار، هذا هو الأصل في اشتقاق الاسم‘‘
یعنی ’’جس طرح کہ اقوال ’’مکلم‘‘، اور ’’مخاطب‘‘، ’’ضارب‘‘، ”المكالمة‘‘، ’’المخاطبة‘‘ اور ’’الضرب‘‘ سے مشتق ہیں اور ان کا اجر ان امور (مکالمہ، مخاطبہ اور ضرب) میں واقع ہونے والے پر بلا تمیز قلت و کثرت مقدار کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ افعال سے مشتق ہونے والے تمام دوسرے اسماء کا بھی ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلاں کے ساتھ ایک حول (بارہ ماہ) یا ایک طویل زمانہ یا ایک سال یا ایک ماہ یا ایک دن یا ایک گھنٹہ کی صحبت اختیار کی ہے۔ پس مصاحبت کا اسم قلیل و کثیر دونوں مصاحبتوں پر یکساں واقع ہوتا ہے۔ پس لغت کے حکم میں یہ چیز ہر اس شخص پر اسم صحابی کے اجراء کی موجب ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو خواہ اس صحبت کی مدت دن کی ایک ساعت ہی ہو اور یہ چیز ہی اشتقاق الاسم میں اصل ہے‘‘۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے قاضی ابوبکر بن الطیب الباقلانی کی عبارت سے مندرجہ بالا سطور کو محض اپنے موقف کی کمزوری چھپانے کے لئے حذف کر دیا ہے، -فَإِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ- ہو سکتا ہے کہ اس قطع و برید کو ہی حلقہ فراہی و اصلاحی میں و ’’تدبر حدیث‘‘ سے عبارت سمجھا جاتا ہو لیکن دنیا کا کوئی بھی منصف مزاج قاری اس حرکت کو علمی بددیانتی کے سوا کوئی دوسرا نام نہ دے سکے گا۔
اس رائے کے متعلق تیسری قابل غور چیز یہ ہے کہ قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کے جس قول کو پہلے خود جناب اصلاحی صاحب نے ’’ایک محقق کا قول‘‘ قرار دیا ہے، جس کی حیثیت کو ’’ایک محاکمہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور جس کی اہمیت میں یوں رطب اللسان ہیں کہ ’’جس (اس) سے مسئلہ کی صحیح نوعیت بالکل واضح ہو جاتی ہے‘‘ – آگے چل کر جب اسی ’’محقق‘‘ کے ’’محاکمہ‘‘ کی زد ان کے اپنے افکار و نظریات پر پڑتی ہے تو فوراً پہلو بدل کر یوں گویا ہوتے ہیں:
’’اس اقتباس میں ان محقق کی بات کا پہلا حصہ کمزور ہے کہ ’’صحبة‘‘ کے لفظ میں قلیل اور کثیر کا اعتبار نہیں ہے۔ ’’صحبة‘‘ اس کو نہیں کہتے کہ اچانکہ آپ کی نظر کسی پر پڑ گئی یا چند قدم اس کے ساتھ ہو لئے۔ یہ لفظ خود کثرت ملاقات کے اوپر دلیل ہے الخ‘‘۔