کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 77
لی ہو۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ اس لفظ کا استعمال اسی کے لئے ہو جس کے لئے فی الواقع موضوع ہے۔ اگرچہ ایک ثقہ اور امین کی روایت اس سے مقبول ہو گی اور اس پر عمل بھی ہو گا ہر چند اس کو طویل صحبت حاصل نہ ہوئی ہو، اور اس نے ایک ہی حدیث سنی ہو۔ اس اقتباس میں ان محقق کی بات کا پہلا حصہ کمزور ہے کہ ’صحبة‘ کے لفظ میں قلیل اور کثیر کا اعتبار نہیں ہے۔ ’صحبة‘ اس کو نہیں کہتے کہ اچانک آپ کی نظر کسی پر پڑ گئی یا چند قدم اس کے ساتھ ہو لئے۔ یہ لفظ خود کثرت ملاقات کے اوپر دلیل ہے۔ البتہ تحقیق کا دوسرا حصہ مضبوط ہے۔ اس سے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ امت کے اکابر اہل الرائے نے صحابی رضی اللہ عنہ ہونے میں بطور شرط اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ وہ خاصی مدت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے ہوں اور اسلام کے لئے ان کی خدمات ہوں۔ اس تعریف کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم کے وہ تینوں منصب جو قرآن مجید اور حدیث میں بیان ہوئے ہیں وہ ثابت ہوتے ہیں اور محدثین کے اس اصول کا صحیح محل بھی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ جرح سے ماورا ہیں‘‘۔ [1] محدثین کے مزعومہ تیسرے گروہ کی اس رائے کے متعلق پہلی قابل وضاحت چیز تو یہ ہے کہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی صحیح تر عبارت میں: ’’ومع ذلك فقد تقرر للأمة‘‘ کے بجائے: ’’ومع ذلك فقد تقرر للأئمة‘‘ موجود ہے۔ ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ (مطبع دائرۃ المعارف حیدر آباد والمکتبہ العلمیہ، المدینۃ المنورہ) کے صفحہ 51 پر ’’للأئمة‘‘ بسبب تصحیف ’’للأمة‘‘ ہو گیا ہے۔ راقم کو اس سلسلہ میں ’’الکفایۃ‘‘ کے جن قدیم مخطوط نسخوں یا ان کی مائیکرو فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ان میں سے بیشتر میں ’’للأئمة‘‘ ہی مذکور ہے۔ یہ بات اس طرح مزید مؤکد ہو جاتی ہے کہ محدثین میں سے حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ (م 806ھ) اور حافظ محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی رحمہ اللہ (م 902) وغیرہما نے امام باقلانی رحمہ اللہ کا مذکورہ قول نقل کرتے ہوئے ’’للأمة‘‘ کے بجائے ’’للأئمة‘‘ ہی بیان کیا ہے۔ [2] ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان حضرات کے پیش نظر ’’الکفایۃ‘‘ کے جو نسخ رہے ہوں گے وہ اس تصحیف سے پاک ہوں گے۔ یہی بات عین قرین عقل بھی ہے کیونکہ اس کے آگے جس رائے کو امت کے نزدیک ’’عرف کی حیثیت‘‘ سے بیان کیا گیا ہے وہ پوری امت میں کبھی بھی معروف نہ تھی۔ امت میں سے صرف علمائے اصول کا ایک طبقہ ہی اس بات کا قائل رہا ہے۔ امام باقلانی رحمہ اللہ نے یہاں ’’للأئمة‘‘ کہہ کر اصلاً انہی علمائے اصول کی طرف اشارہ کیا ہے، واللہ أعلم۔ اس رائے کے متعلق دوسری قابل وضاحت چیز جس کو جناب اصلاحی صاحب نے قصداً حذف کر دیا
[1] مبادئ تدبر حدیث: 80-82 [2] التقیید والایضاح للعراقی: ص 256، فتح المغیث للعراقی: 345، فتح المغیث للسخاوی: 4/84-85