کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 66
صحابہ کرام اور شرف صحابیت اصلاحی صاحب کی نظر میں ’’صحابہ و صحابیت‘‘ کے عنوان سے ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کا یہ باب اصلاً جناب امین احسن اصلاحی صاحب کا وہ مضمون ہے جو شامل کتاب ہونے سے سات سال قبل رسالہ ’’تدبر‘‘[1]لاہور میں شائع ہو چکا ہے۔ محترم اصلاحی صاحب نے اس باب کی ابتدا انہی زریں سطور سے کی ہے جن کو راقم نے زیر مطالعہ باب کے آغاز میں درج کیا ہے۔ آگے چل کر آں محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’امت کے ہراول دستہ اور شہداء اللہ فی الارض‘‘ نیز ایک دوسرے مقام پر ’’شہداء اللہ علی الناس‘‘ یعنی ’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کے وارث اور گواہ‘‘ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعدیل قرآن میں: اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو امت کے ہراول دستہ اور ’شہداء اللہ فی الارض‘ کا درجہ دیا ہے۔ فرمایا: [وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا] (البقرہ- 2: 143) ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے۔‘‘ اس آیت سے ایک تو یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین حق کی تبلیغ و دعوت اور اقامت کی ذمہ داری جس طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی اسی طرح سے یہ ذمہ داری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم پر عائد ہوئی اور یہ ذمہ داری ان کے اوپر مجرد ایک نفلی نیکی کی حیثیت سے نہیں بلکہ بحیثیت ایک فریضہ منصبی کے ڈالی گئی۔ دوسری یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو امت میں جو شرف حاصل ہے وہ ’شہداء اللہ علی الناس‘ یعنی ’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کے وارث اور گواہ ہونے کی بناء پر پرہیز‘۔ [2] ان سطور کے متعلق راقم کو اس کے سوا کچھ عرض نہیں کرنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعدیل کے متعلق اگر جناب اصلاحی صاحب کے پیش نظر سورۃ البقرہ کی آیت 143 کے علاوہ وہ دوسری تمام آیات بھی ہوتیں، کہ جن کا
[1] تدبر لاہور: عدد شمارہ 5 ص 17-24 مجریہ ماہ اکتوبر 1982ء [2] مبادئ تدبر حدیث: ص 76-77