کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 64
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ محدثین اور اصحاب تاریخ و سیر کا اتفاق ہے کہ باعتبار عمر وفات میں سب سے آخری صحابی علی الاطلاق حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ اللیثی رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کی وفات مکہ مکرمہ میں 100ھ میں ہوئی تھی، بعض نے اس سن وفات سے زیادہ یعنی 102ھ، 107ھ اور 110ھ تک بھی بتایا ہے۔ [1] ابو الطفیل رضی اللہ عنہ سے قبل وفات پانے والے صحابی حضرت محمود بن الربیع تھے جن کی وفات 99ھ میں ہوئی تھی اور ان سے قبل حضرت انس رضی اللہ عنہ نے 93ھ میں بمقام بصرہ وفات پائی تھی۔[2]
آخری صحابی باعتبار فضائل:
بدری انصاری صحابیوں میں آخری وفات پانے والے صحابی حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی رضی اللہ عنہ تھے، لیکن مدائنی اور ابو زکریا بن مندہ کا قول ہے کہ آخری انصاری بدری صحابی ابو اسید رضی اللہ عنہ تھے یا پھر ابو الیسر کعب بن عمرو، [3] امام اسحاق اور ابن الجوزی کی تحقیق کے مطابق آخری بدری مہاجر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ عشرہ مبشرہ میں سے وفات پانے والے آخری صحابی بھی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ اصحاب بیعت رضوان میں سے آخری صحابی حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ، قبلتین کی طرف نماز پڑھنے والے صحابیوں میں سے آخری صحابی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ، اصحاب عقبہ میں سے آخری صحابی بقول امام ابن الجوزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ، موالئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے آخری صحابی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ، ازواج مطہرات میں سے آخری زوجہ بقول واقدی وغیرہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا تھیں، لیکن بروایت یونس بن شہاب آخری زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اس قول کو درست بتایا ہے۔ [4]صحیح مسلم [5] کی روایت سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے۔ [6]
مقام صحابیت کی معرفت کا فائدہ
صحابہ کرام کی معرفت ایک فن جلیل ہے اور بہت عظیم فوائد کا حامل ہے۔ اس کے ذریعہ ’’مرسل‘‘ اور ’’متصل‘‘ احادیث کے درمیان امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ [7]
[1] مقدمہ ابن الصلاح: ص 270، فتح المغیث للعراقی: ص 359، التقیید والایضاح: ص 270، فتح المغیث للسخاوی: 4/128، الاصابۃ لابن حجر: 4/113، فتح الباری: 7/5، تدریب الراوی: 2/218-219
[2] فتح المغیث للعراقی: ص 359، التقیید والایضاح: ص 272، تدریب الراوی: 2/230
[3] الاستیعاب للقرطبی: 3/1352، 4/1598، تہذیب الکمال: 3/1299، تہذیب التہذیب: 10/6، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: 3/344
[4] الاصابۃ لابن حجر: 4/460
[5] صحیح مسلم: 4/نمبر 2208-2209
[6] فتح المغیث للسخاوی: 4/143
[7] الاستیعاب للقرطبی: 1/8، فتح المغیث للسخاوی: 4/75، تقریب النواوی مع تدریب: 2/206، مقدمہ تحفۃ الاحوذی: ص 149، مالمس الیہ حاجۃ القاری للنووی: ص 103