کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 63
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل کون ہے؟ ابو منصور عبدالقادر بغدادی التمیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام میں سب سے افضل چاروں خلفاء ہیں، پھر عشرہ مبشرہ میں سے باقی چھ صحابی (یعنی حضرت طلحہ بن عبیداللہ، زبیر بن العوام، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل، عبدالرحمٰن بن عوف اور ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہم اجمعین)، پھر بدری صحابی، پھر غزوہ احد میں شریک ہونے والے صحابہ، پھر حدیبیہ کی بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ، (پھر انصار میں سے جس کو العقبة الاوليٰ اور العقبة الثانيه کا شرف حاصل ہوا یا جو مہاجرین و انصار میں سے السابقون الاولون میں سے تھے یا وہ جنہوں نے قبلتین کی طرف نماز پڑھی ہے، ان کو دوسروں پر اضافی فضیلت حاصل ہے۔‘‘ [1] واضح رہے کہ خلفائے اربعہ میں بھی باجماع اہل سنت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ علی الاطلاق سب سے افضل ہیں، پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا درجہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع نقل کیا ہے۔ اسی طرح ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ نے بھی شیخین کی تفضیل پر اجماع نقل کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’اس بارے میں ائمہ سلف و خلف میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی افضلیت پر اکثر اہل سنت کا اتفاق ہے جیسا کہ امام خطابی رحمہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے لیکن بعض اہل کوفہ فضیلت کے اعتبار سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے ہیں، لیکن یہ ان تمام تفصیلات کا موقع نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے حاشیہ [2] کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ آخری صحابی باعتبار عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل بعد نماز عشاء یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ آج رات جو شخص روئے زمین پر بحیات ہے، سو سال کے سرے پر وہ باقی نہ رہے گا۔ اس موقع پر آپ کے الفاظ مبارک یہ تھے: ’’أرأيتكم ليلتكم هذه، فإن رأس مائة سنة لا يبقي ممن هو اليوم علي ظهر الأرض أحد‘‘ [3]
[1] مقدمہ ابن الصلاح: ص 264، فتح المغیث للسخاوی: 4/120، تدریب الراوی: 2/223-224، الکتاب الجامع مع الجواھر المضئیۃ: 2/412، علوم الحدیث: ص 269، تقریب النواوی مع تدریب: 2/222-224، شرح مسلم للنووی: 15/148، الارشاد للنووی: 2/489، اصول الدین لابی منصور التمیمی: ص 304، المنہل الروی: ص 112، فتح المغیث للعراقی: ص 356 [2] مقدمہ ابن الصلاح: ص 264، کتاب الجامع مع الجواھر المضئیۃ: 2/411، فتح المغیث للعراقی: ص 354-356، فتح المغیث للسخاوی: 4/112-119، تدریب الراوی: 2/223، تقریب النواوی مع تدریب: 2/222-223، الاعتقاد للبیہقی: ص 192 [3] صحیح البخاری مع فتح الباری: 1/211، 2/74-75 وغیرہ