کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 62
لم يلازمه أو لم يحضر معه مشهدا و علي من كلمه يسيرا أو ما شاه قليلا أو رآه علي بعد أو في حال الطفولية‘‘ [1] یعنی ’’اس میں کوئی خفاء نہیں کہ جو صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہا ہو اور آپ کے جیش میں شریک ہوا ہو یا آپ کے زیر علم شہید ہوا ہو بلاشبہ اس کا مقام اس صحابی سے بلند ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی نصیب نہیں ہوئی یا آپ کے ساتھ شریک معرکہ نہیں ہوا یا بہت کم گفتگو اور ساتھ چلنا نصیب ہوا یا آپ کو دور سے دیکھا یا بچپن میں دیکھا۔‘‘ یعنی تفاوت درجات کے لحاظ سے ان میں بڑا فرق ہے، اگرچہ شرف صحبت کے اعتبار سے سب یکساں ہیں۔ صحابہ کرام کے اسی تفاوت درجات کے پیش نظر ابن سعد رحمہ اللہ نے ان کو پانچ طبقات میں، امام ابن العربی رحمہ اللہ نے آٹھ طبقات میں اور امام حاکم ابو عبداللہ نیشا پوری رحمہ اللہ نے بارہ طبقات میں تقسیم کیا ہے [2]۔ ابن سعد رحمہ اللہ کے بیان کردہ پانچ طبقات حسب ذیل ہیں: ’’اول: بدری صحابی، دوم: وہ لوگ جنہوں نے اسلام لانے میں سبقت کی اور ان میں سے اکثر نے حبشہ ہجرت کی، سوم: وہ لوگ جو غزوہ خندق کے موقع پر شریک غزوہ تھے، چہارم: جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور پنجم: وہ بچے جو کسی غزوہ میں شریک نہیں ہو سکے‘‘۔[3] صحابہ کرام کے بارہ طبقات حسب تقسیم امام حاکم رحمہ اللہ مندرجہ ذیل ہیں: ’’1- جو مکہ میں قبل الہجرت مسلمان ہوئے (مثلاً خلفائے اربعہ)، 2- اصحاب دارالندوہ، 3- مہاجرین جثہ (جو ماہ رجب 5 نبوی میں ہوئی تھی)، 4- اصحاب العقبة الاوليٰ، 5- اصحاب العقبة الثانيه (جن میں اکثر انصار تھے)، 6- اول مہاجرین جو مدینہ ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت آ ملے تھے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قباء ہی میں تھے، مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوئے تھے، 7- اہل بدر، 8- وہ مہاجرین جو غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ کے دوران مدینہ پہنچے، 9- اہل بیعت رضوان، 10- وہ مہاجرین جو صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے دوران مدینہ منورہ پہنچے (مثلاً خالد بن ولید اور عمرو بن العاص)، 11- جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے، اور 12- وہ بچے جنہوں نے فتح مکہ یا حجۃ الوداع وغیرہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا۔‘‘ [4]
[1] شرح نخبۃ الفکر: ص 28، قواعد التحدیث للقاسمی: ص 200، علوم الحدیث لصبحی صالح: ص 450 [2] الاحکام لابن العربی: 2/1002 [3] الجامع للخطیب: 2/292-293، فتح المغیث للعراقی: ص 353-354، فتح المغیث للسخاوی: 4/112، تدریب الراوی: 2/221، اختصار علوم الحدیث: ص 183، 184 [4] معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص 29-31، 628، فتح المغیث للسخاوی: 4/111-112، فتح المغیث للعراقی: 353-354، تدریب الراوی: 2/221-222، علوم الحدیث لصبحی صالح: ص 451-452