کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 61
’’محدثین کے نزدیک عبادلہ میں ابن مسعود کے بجائے ابن الزبیر شامل ہیں لیکن ابن مسعود کو شمار کرنے والوں میں ابو الحسین ابن ابی الربیع القرشی، قاسم التجیبی (کہ جنہوں نے اپنے ’’فوائد‘‘ سفر میں تذکرہ کیا ہے) اور متاخرین میں سے ابن ہشام بھی ہیں جنہوں نے ’’التوضیح‘‘ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن الزبیر کے مقام پر عبادلہ میں شمار کیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک اس کی دلیل ’’الہدایہ‘‘ کی یہ عبارت ہے: ’’قال العبادلة و ابن الزبير أشهر الحج شوال و ذوالقعدة و عشر من ذي الحجة‘‘ یہاں ابن الزبیر کو عبادلہ کے ساتھ معطوف کیا گیا ہے، لیکن محدثین وغیرہ کے نزدیک معتمد اور مشہور چیز اول الذکر ہی ہے یعنی ابن مسعود کے بجائے ابن الزبیر کا عبادلہ میں شامل ہونا۔‘‘ [1]
مزید تفصیل کے لئے حاشیہ [2] کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
صحابہ کرام کی تعداد
صحابہ کرام کی صحیح اور قطعی اعدادوشمار کسی کو علم نہیں ہے، لیکن بعض محققین کے اقوال سے مستفاد ہوتا ہے کہ صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی۔ ان اقوال میں سب سے زیادہ مشہور قول امام ابو زرعہ کا ہے، جو کہ اس طرح منقول ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صحابہ و صحابیات کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی کہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت و سماع کا شرف حاصل تھا الخ۔‘‘ [3]
طبقات صحابہ
طبقات صحابہ کی تعداد میں محققین کا اختلاف ہے۔ [4] بعض لوگ سبقت فی الاسلام یا ہجرت یا فضیلت والے مقامات میں ان کی حاضری کے اعتبار سے ان کو مختلف طبقات میں رکھتے ہیں۔ [5] چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لا خفاء في رجحان رتبة من لازمه صلي اللّٰه عليه وسلم و قاتل معه أو قتل تحت رأيته علي من
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/105
[2] فتح المغیث للعراقی: ص 350-351، التقیید والایضاح: ص 262، تدریب الراوی: 2/219-220، الہدایۃ للمرغینانی: 1/244، فتح القدیر: 1/512، التقریر والتحبیر: 2/250، الکتاب الجامع مع الجواھر المضئیۃ للقرشی: 2/413، أوضح المسالک: 1/184
[3] الاستیعاب: 1/9، مقدمۃ ابن الصلاح: 263، التقیید والإیضاح: ص 263-264، فتح المغیث للعراقی: ص 353، فتح المغیث للسخاوی: 4/109، الاصابۃ لابن حجر: 1/4، الکتاب الجامع مع الجواھر المضئیۃ: 2/413، تقریب مع تدریب الراوی: 2/220
[4] الارشاد للنووی: 2/487، علوم الحدیث للحاکم: ص 29، 30، 36، فتح المغیث للعراقی: ص 353
[5] مقدمہ ابن الصلاح: ص 264، فتح المغیث للعراقی: ص 353، فتح المغیث للسخاوی: 4/111