کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 59
پر ہوئی ہے یعنی حضرت ابو الدرداء، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابی بن کعب، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت ابن مسعود اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم، پھر ان چھ اصحاب رسول کے علم کی انتہا حضرت علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما پر ہوئی ہے۔‘‘ [1]
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سب سے زیادہ فتاویٰ دینے والے صحابہ، سات ہیں: حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت زید بن ثابت، حضرت عائشہ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر ان صحابہ میں سے ہر صحابی کے فتاویٰ علیحدہ علیحدہ جمع کئے جائیں تو ضخیم جلدوں میں سمائیں گے۔ درحقیقت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فتاویٰ دینے والے صحابی تھے، حتی کہ کبار صحابہ آپ کی طرف فتاویٰ کے لئے رجوع کیا کرتے تھے۔‘‘ [2]
امام ابن حزم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ان سات مکثرین مفتیان صحابہ کے بعد بیس ایسے صحابہ آتے ہیں کہ اگر ان میں سے ہر صحابی کے فتاویٰ علیحدہ علیحدہ جمع کئے جائیں تو چھوٹے چھوٹے اجزاء تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ صحابہ: ابوبکر، عثمان، ابو موسیٰ، معاذ، سعد بن ابی وقاص، ابو ہریرہ، انس، عبداللہ بن عمرو بن العاص، سلمان، جابر، ابو سعید، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف، عمران بن حصین، ابوبکرہ، عبادہ بن الصامت، معاویہ، ابن الزبیر اور ام سلمہ ہیں۔ ان کے بعد ایک سو بیس ایسے صحابہ ہیں کہ جن سے بہت قلیل مقدار میں یعنی ایک دو، یا تین فتاویٰ ہی منقول ہیں۔ یہ صحابہ: ابی بن کعب، ابو الدرداء، ابو طلحہ، مقداد وغیرہم ہیں – اگر ان تمام صحابی کے فتاویٰ کو یکجا جمع کیا جائے تو ایک چھوٹے حجم کا مجموعہ تیار ہو سکے گا۔‘‘ [3]
عبادلہ کون صحابہ ہیں؟
’عبادلہ‘ سے مراد فی الحقیقت وہ صحابہ ہیں جن کے اسماء گرامی عبداللہ ہیں، ان کی تعداد بقول حافظ ابن الصلاح و نووی رحمہما اللہ 220، بقول ابن فتحون و حافظ عراقی رحمہما اللہ تقریبا تین صد تک اور بقول امام سخاوی رحمہ اللہ اس
[1] مقدمہ ابن الصلاح: ص 262-263، تقریب النواوی مع تدریب: 2/218، فتح المغیث للعراقی: ص 352، فتح المغیث للسخاوی: 4/106
[2] فتح المغیث للسخاوی: 4/103، فتح المغیث للعراقی: 350، الاحکام لابن حزم: 5/92، الارشاد للنووی: 2/485، علوم الحدیث: ص 266، الاصابۃ لابن حجر: 1/22، إعلام الموقعین لابن قیم: 1/12، الکتاب الجامع مع الجواھر المضیئۃ: 2/414-415، تدریب الراوی: 2/219
[3] الاحکام لابن حزم: 5/92-93، جامع السیرۃ لابن حزم: 319-323، فتح المغیث للسخاوی: 4/104، الاصابۃ لابن حجر: 1/22، کتاب الجامع مع الجواھر المضئیۃ: 2/415-417، اعلام الموقعین: 1/12-13، تدریب الراوی: 2/219