کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 54
کے لئے دوسرے تمام راویوں کے خیر و شر کی تحقیق کی جائے گی اور صرف تحقیق کے بعد ہی ان کی روایت قبول ہو گی، لیکن صحابی رضی اللہ عنہ اس طرح کی تحقیق سے بالاتر ہوں گے۔‘‘ [1]
لیکن جمہور امت کے اس اجماعی فیصلہ کے خلاف بعض اہل بدعت (بالخصوص معتزلہ) کے متعلق مشہور ہے کہ:
’’وذهبت المعتزلة إلي تفسيق من قاتل علي بن أبي طالب منهم‘‘[2](یعنی ’’معتزلہ ان صحابہ کی تفسیق کے قائل ہیں جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں سے تھے۔‘‘) ’’وقيل يرد الداخلون في الفتن كلهم لأن أحد الفريقين فاسق من غير تعيين‘‘[3](یعنی ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ فتن میں ملوث ہونے والے تمام صحابہ کو رد کیا جائے گا کیونکہ (ان کے نزدیک) فریقین میں سے بلا تعیین ایک گروہ ضرور فاسق ہے۔‘‘)
حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ایک اور قول ہے: ’’إنهم عدول إلي وقوع الفتن فأما بعد ذلك فلا بد من البحث عمن ليس ظاهر العدالة‘‘ [4]
(یعنی ’’صحابہ کرام فتن کے واقع ہونے سے قبل تک عدول تھے لیکن فتن کے ظہور کے بعد جو ظاہر العدالت صحابی نہ ہوں ان پر بحث ضروری ہے۔‘‘) علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وذهبت طائفة من أهل البدع إلي أن حال الصحابة كانت مرضية إلي وقت الحروب التي ظهرت بينهم --‘‘ [5] اور علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آمدی اور ابن الحاجب نے ایک قول اس طرح نقل کیا ہے: ’’إنهم كغيرهم في لزوم البحث عن عدالتهم مطلقا‘‘[6](یعنی ’’عدالت کے متعلق بحث کے لزوم میں صحابہ کرام بھی مطلقاً دوسرے تمام لوگوں کی طرح ہی ہیں)۔ لیکن علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اس طرح کے چند خلاف اجماع اقوال نقل کرنے کے بعد نہایت فیصلہ کن انداز میں ان اقوال کی تغلیط فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وهذا كله ليس بصواب‘‘[7]یعنی ’’یہ تمام چیزیں غیر صحیح ہیں۔‘‘
٭٭٭
[1] مبادئ تدبر حدیث للاصلاحی: ص 78
[2] التقیید والإیضاح للعراقی: ص 261
[3] نفس مصدر: ص 261
[4] فتح المغیث للعراقی: ص 350، تدریب الراوی للسیوطی: 2/214
[5] الکفایۃ للخطیب: ص 49
[6] فتح المغیث للسخاوی: 4/97، منتہی الوصول والامل: ص 80، بیان المختصر 1/712، 714، المستصفی للغزالی: 1/164، الکفایۃ للخطیب: ص 49، المسودۃ: ص 292، احکام الفصول: ص 374-375، روضۃ الناظر: ص 60، التقیید والإیضاح للعراقی: ص 261-262، فتح المغیث للعراقی: 250، الاحکام للآمدی: 2/128، اللمع: ص 51، شرح اللمع: 2/634-638، المنحول: ص 626، تدریب الراوی: 2/214
[7] تدریب الراوی للسیوطی: 2/214