کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 51
یعنی ’’اگر کسی حدیث کی سند میں کوئی تابعی ’’عن رجل من الصحابة‘‘ کہے تو یہ حجت ہے۔ تمام صحابہ کی عدالت کی تعیین کے باعث سند میں صحابی کا غیر موسوم ہونا مضر نہیں ہے۔‘‘ 31- امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں اس بارے میں ایک مستقل باب یوں باندھا ہے: ’’باب لا تضر الجهالة بالصحابة لأنهم عدول‘‘ [1] 32- علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فإذا قال الراوي: عن رجل من الصحابة ولم يسمه كان ذلك حجة ولا يضر الجهالة لثبوت عدالتهم علي العموم‘‘ [2] یعنی ’’اگر کوئی راوی ’’عن رجل من الصحابة‘‘ کہے اور اس صحابی کا نام نہ لے تو بھی اس کی یہ روایت حجت ہے۔ صحابی کا غیر موسوم ہونا تمام صحابہ کی عمومی عدالت کے باعث صحت روایت کے لئے مضمر نہیں ہے۔‘‘ 33- حافظ عراقی رحمہ اللہ وغیرہ بیان کرتے ہیں: ’’والذي عليه الجمهور كما قال الآمدي و ابن الحاجب أنهم عدول كلهم مطلقا وقال الآمدي انه المختار‘‘[3] یعنی ’’اسی بات پر جمہور (متفق) ہیں جیسا کہ آمدی اور ابن الحاجب نے بیان کیا ہے کہ تمام صحابہ مطلقاً عدول ہیں، بلکہ آمدی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہی چیز پسندیدہ اور مختار ہے۔‘‘ واضح رہے کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے یہاں ’’جمہور‘‘ سے مراد ’’من السلف والخلف‘‘ بیان کی ہے۔ [4] 34- الکیاطبری کا قول ہے: ’’ہمارے اصحاب میں سے بہت سوں کا موقف بھی (جمہور کے موافق) یہی ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ: یہ تمام سلف اور جمہور خلف کا قول ہے۔‘‘ [5] 35- حافظ ابو زرعہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے: ’’إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فاعلم أنه زنديق و ذلك أن الرسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم حو والقرآن حق وما جاء به حق و إنما ادّي الينا ذلك كله
[1] مجمع الزوائد: 1/153 [2] قواعد التحدیث للقاسمی: ص 200 [3] فتح المغیث للعراقی: ص 350، التقیید للعراقی: ص 261، فتح المغیث للسخاوی: 4/100 [4] فتح المغیث للسخاوی: 4/100 [5] نفس مصدر: 4/97