کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 50
’’علام الغیوب سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدیل جو کہ صحابہ کے حق میں وارد ہے، سے زیادہ صحیح اور کون سی تعدیل ہو سکتی ہے۔ اور اگر ان کی مدح و ثناء وارد نہ ہوتی تب بھی ان کے احوال مثلاً ہجرت و جہاد، بذل مہج و اموال، موالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے آباء و اہل کا قتل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وغیرہ ہی ان کی عدالت ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔‘‘ [1]
27- ابن انباری رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’صحابہ کرام کی عدالت سے مراد ان کی عصمت کا اثبات نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ ان سے امور معصیت محال ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ان کی روایات کو اسباب عدالت کی بحث کے تکلفات اور طلب تزکیہ کے بغیر قبول کرنا ہے، الا یہ کہ ارتکاب قادح ثابت ہو جائے جو کہ الحمدللہ ثابت نہیں ہے۔‘‘ [2]
28- حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و إن كان الصحابة رضي اللّٰه عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق وهم أهل السنة والجماعة علي أنهم كلهم عدول فواجب الوقوف علي أسمائهم والبحث عن سيرهم و أحوالهم ليهتدي بهديهم فهم خير من سلك سبيله واقتدي به‘‘ [3]
29۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، امام الحرمین رحمہ اللہ سے صحابہ کرام کی عدالت کی عدم جانچ پڑتال کے اسباب بیان کرتے ہوئے موافق و مخالف ہر دو گروہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد مخالفین کے اقوال کی تغلیط فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’والسبب في عدم الفحص عن عدالتهم أنهم حملة الشريعة فلو ثبت توقف في روايتهم لا نحصرت الشريعة علي عصره صلي اللّٰه عليه وسلم ولما استرسلت سائر الأعصار و قيل يجب البحث عن عدالتهم مطلقا و قيل بعد وقوع الفتن و قالت المعتزلة عدول إلا من قاتل عليا و قيل إذا انفرد و قيل إلا المقاتل والمقاتل و هذا كله ليس بصواب‘‘ [4]
30- امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إذا قيل في الأسناد عن رجل من الصحابة، كان حجة ولا تضر الجهالة بتعيينه لثبوت عدالتهم‘‘ [5]
[1] المستصفی للغزالی: 1/164
[2] فتح المغیث للسخاوی: 4/100، حاشیہ تدریب الراوی: 2/215
[3] الاستیعاب: 1/8
[4] تدریب الراوی: 2/214
[5] فتح المغیث للسخاوی: 4/101