کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 49
و مشاجرات میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ صحابہ کرام کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے ان کو عدول سمجھنا واجب ہے اور اس لئے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے احکام اور افعال کو جس طرح انہوں نے اپنے لئے نظیر بنایا پھر ان کا اقالیم کو فتح کرنا، کتاب و سنت کی تبلیغ کرنا، لوگوں کی رہنمائی کرنا، نماز و روزہ اور قربت الٰہی کے تمام امور پر مواظبت کرنا، پھر ان کی شجاعت و براعت، کرم و ایثار اور اخلاق حمیدہ جو کہ سابقہ امتوں میں سے کسی بھی امت میں نہیں پائے جاتے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان سب کو عدول سمجھا جائے۔‘‘
22- حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر تمام صحابہ کرام کی عدالت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’والصحابة كلهم عدول قلت لا شك إن الصحابه الذين بينت صحبتهم كلهم عدول‘‘ [1]
23- امام نووی رحمہ اللہ اور علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به‘‘ [2]
24- حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’اتفق أهل السنة علي أن الجميع عدول ولم يخالف في ذلك إلا شذوذ من المبتدعة‘‘ [3]
یعنی ’’تمام اہل سنت کا اتفاق ہے کہ جمیع صحابہ عدول ہیں۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے سوائے مبتدعین کے شذوذ کے۔‘‘
25- آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’الصحابة كلهم عدول ولا يحتاجون إلي تزكية ولا يقال بعد ثبوت صحبته أنه مجهول‘‘ [4]
یعنی ’’صحابہ کرام سب کے سب عدول ہیں اور اس کے لئے وہ کسی تزکیہ کے محتاج نہیں ہیں۔ ثبوت صحبت کے بعد ان میں سے کسی کو مجہول نہیں کہا جائے گا۔‘‘
26- امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] التقیید والإیضاح للعراقی: ص 125
[2] تقریب النواوی مع تدریب الراوی: 2/214، قواعد التحدیث للقاسمی: ص 200
[3] الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر: 1/17
[4] فتح الباری: 1/181، 10/575